(ذیل کا مقالہ دراصل وہ میمورینڈم ہے جو مولانا مودودیؒ نے اصلاح تعلیم کے سلسلے میں قومی تعلیمی کمیشن کو بھیجا تھا۔ چونکہ کمیشن کے جاری کردہ سوالنامے کا دائرہ اس قدر محدود تھا کہ اس کے حدود میں رہتے ہوئے بنیادی تبدیلیوں کے متعلق کوئی تجویز پیش نہیں کی جا سکتی تھی‘ اس لیے یہ مقالہ کمیشن کی اجازت سے اس سے آزاد ہو کر لکھا گیا ہے…)
اس ملک کے موجودہ نظامِ تعلیم میں اصلاحات تجویز کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان نقائص کو اچھی طرح سمجھ لیں جو ہماری تعلیم کے نظام میں اس وقت پائے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ اس میں اصلاح کِس طرح اور کِس شکل میں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں اس وقت دو طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ ایک وہ جس پر ہمارے پرانے طرز کے مدارس چل رہے ہیں اور ہماری مذہبی ضروریات پوری کرنے کیلئے علماء تیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں رائج ہے اور مذہبی دائرے سے باہر ہمارے پورے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے کارکن تیار کرتا ہے۔ ان دونوں کے نقائص کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ہمیں ان کے بجائے ایک ہی ایسا نظامِ تعلیم تجویز کرنا ہو گا جو ہماری ساری قومی ضروریات کو بیک وقت پورا کر سکے۔ اور اس موجودہ تعلیمی ثنویت کو ختم کر دے جو دین ودنیا کی تفریق کے گمراہانہ نظرئیے پر مبنی ہے۔