اس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادی، حسی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دُنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں، ڈھا دیا۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، معیشت اور سیاست کی غیرعقلی تفریقوں کو جن کی بنا پر انسان نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے انسانیت کو تقسیم کر رکھا تھا، مٹا دیا اور انسانیت کے مادے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا۔
اس تخریب کے ساتھ اس نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیت تعمیر کی۔ اس قومیّت کی بنا بھی امتیاز پر تھی، مگر مادی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر۔ اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اس نے خدا کی بندگی و اطاعت، نفس کی پاکیزگی و طہارت، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف ساری نوعِ بشر کو دعوت دی۔ پھر کَہ دیا کہ ایمان اور اسلام کی ہے اور جو اس کو رد کرے وہ دوسری قوم سے ہے۔ ایک قوم اس دعوت کو قبول کرے وہ ایک قوم سے ہے اور اس کے سب افراد ایک اُمت ہیں۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ،اور ایک قوم کفر اور گمراہی کی ہے، اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں: وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔
ان دونوں قوموں کے درمیان بنائے امتیاز نسل اور نسب نہیں، اعتقاد اور عمل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے اسلام اور کفر کی تفریق میں جدا جدا ہوجائیں، اور دو بالکل اجنبی آدمی اسلام میں متَّحد ہونے کی وجہ سے ایک قومیت میں مشترک ہوں۔
وطن کا اختلاف بھی ان دونوں قوموں کے درمیان وجۂ امتیاز نہیں ہے۔ یہاں امتیاز حق اور باطل کی بنیاد پر ہے جس کا کوئی وطن نہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شہر، ایک محلہ، ایک گھر کے دو آدمیوں کی قومیتیں اسلام اور کفر کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوجائیں اور ایک حبشی رشتۂ اسلام میں مشترک ہونے کی وجہ سے ایک مراقشی کا قومی بھائی بن جائے۔
رنگ کا اختلاف بھی یہاں قومی تفریق کا سبب نہیں ہے۔ یہاں اعتبار چہرے کے رنگ کا نہیں اللہ کے رنگ کا ہے اور وہی بہترین رنگ ہے۔
صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً ، ہوسکتا ہے کہ اسلام کے اعتبار سے ایک گورے اور ایک کالے کی ایک قوم ہو اور کفر کے اعتبار سے دو گوروں کی دو الگ قومیتیں ہوں۔
زبان کا امتیاز بھی اسلام اور کفر میں وجہِ اختلاف نہیں ہے۔ یہاں منہ کی زبان نہیں محض دل کی زبان کا اعتبار ہے جو ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے اعتبار سے عربی اور افریقی کی ایک زبان ہوسکتی ہے، اور دو عربوں کی زبانیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
معاشی اور سیاسی نظاموں کا اختلاف بھی اسلام اور کفر کے اختلاف میں بے اصل ہے۔ یہاں جھگڑا دولت ِ زر کا نہیں دولت ِ ایمان کا ہے۔ انسانی سلطنت کا نہیں خدا کی بادشاہت کا ہے۔ جولوگ حکومت ِ الٰہی کے وفادار ہیں، خواہ ہندوستان میں ہوںیا ترکستان میں اور جو خدا کی حکومت سے باغی ہیں اور شیطان سے جان و مال کا سودا کرچکے ہیں وہ ایک دوسری قوم ہیں۔ ہم کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ وہ کس سلطنت کی رعایا ہیں اور کس معاشی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس طرح اسلام نے قومیّت کا جو دائرہ کھینچا ہے وہ کوئی حسی اور مادی دائرہ نہیں بلکہ ایک خالص عقلی دائرہ ہے۔ ایک گھر کے دو آدمی اس دائرے سے جدا ہوسکتے ہیں اور مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے دو آدمی اس میں داخل ہوسکتے ہیں۔
سرِ عشق از عالم ارحام نیست
او زَ سام و حام و روم و شام نیست
کوکبِ بے شرق و غرب و بے غروب
در مدارش نے شمال و نے جنوب
اس دائرے کا محیط ایک کلمہ ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ، اسی کلمہ پردوستی بھی ہے اور اسی پر دشمنی بھی۔اسی کا اقرار جمع کرتا ہے اور اسی کا انکار جدا کردیتا ہے۔ جن کو اس نے جدا کر دیا ہے ان کو نہ خون کا رشتہ جمع کرسکتا ہے، نہ خاک کا، نہ زبان کا، نہ رنگ کا، نہ روٹی کا، نہ حکومت کا۔ اور جن کو اس نے جمع کر دیا ہے انھیں کوئی چیز جدا نہیں کرسکتی۔ کسی دریا، کسی پہاڑ، کسی سمندر، کسی زبان، کسی نسل، کسی رنگ اور کسی زر و زمین کے قضیہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کے دائرے میں امتیازی خطوط کھینچ کر مسلمان اور مسلمان کے درمیان فرق کرے۔ ہرمسلمان خواہ وہ چین کا باشندہ ہو یا مراکش کا گورا ہو یا کالا، ہندی بولتا ہو یا عربی، سامی ہو یا آرِیَن، ایک حکومت کی رعیت ہو یا دوسری حکومت کی، مسلمان قوم کا فرد ہے۔ اسلامی سوسائٹی کا رکن ہے، اسلامی اسٹیٹ کا شہری ہے، اسلامی فوج کا سپاہی ہے، اسلامی قانون کی حفاظت کا مستحق ہے۔ شریعت اسلامیہ میں کوئی ایک دفعہ بھی ایسی نہیں ہے جو عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے کسی شعبہ میں جنسیت یا زبان یا وطنیت کے لحاظ سے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے مقابلہ میں کمتر یا بیشتر حقوق دیتی ہو۔