اس جماعت میں جس کی شیرازہ بندی اسلام کے تعلق کی بنا پر کی گئی تھی خون اور خاک، رنگ اور زبان کی کوئی تمیز نہ تھی۔ اس میں سلمانؓ ایرانی تھے جن سے ان کا نسب پوچھا جاتا تو فرماتے کہ ’’سلمان بن اسلام‘‘۔حضرت علیؓ ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلِ الْبَیْتِ ’’سلمانؓ ہم اہلِ بیت میں سے ہیں‘‘۔ اس میں بازان بن ساسان اور ان کے بیٹے شہر بن باذان تھے جن کا نسب بہرام گور سے ملتا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے حضرت باذان کو یمن کا اور ان کے صاحبزادے کو صنعاء کا والی مقرر فرمایا تھا۔ اس جماعت میں بلال حبشیؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ فرمایا کرتے کہ بِلَالٌ سَیِّدُ نَا وَ مَوْلیٰ سَیِّدِ نَا ’’بلالؓ ہمارے آقا کا غلام اور ہمارا آقا ہے‘‘۔
اس جماعت میں صہیب رومیؓ تھے جنھیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ نماز میں امامت کے لیے کھڑا کیا۔ اس میں حضرت ابوحذیفہؓ کے غلام سالمؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو مَیں خلافت کے لیے انھی کو نامزد کرتا۔ اس میں زیدؓ بن حارثہ ایک غلام تھے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺنے خود اپنی پھوپھی کی بیٹی اُم المومنین حضرت زینبؓ کو بیاہ دیا تھا۔ ان میں حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ تھے جن کو رسول اللہ ﷺنے ایک ایسے لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں حضرت ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شریک تھے۔ انھی اسامہ کے متعلق حضرت عمرؓ اپنے بیٹے عبداللہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ ’’اسامہ کا باپ تیرے باپ سے افضل تھا اور اسامہ خود تجھ سے افضل ہے‘‘۔