Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم

زمانۂ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے رائج ہو چکی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے، اور بعض حلقوں کی طرف سے اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کے لیے لفظ قوم (یا نیشن کے معنی میں کسی دوسرے لفظ) کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ میں اصلی قباحت کیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام میں ان سے پرہیز کیا گیا اور وہ دوسرے الفاظ کون سے ہیں جن کو قرآن و حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ محض ایک علمی بحث نہیں ہے۔ بلکہ اس سے ہمارے بہت سے ان تصورات کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جن کی بدولت زندگی میں ہمارا رویہ بنیادی طور پر غلط ہو کر رہ گیا ہے۔
لفظ ’’قوم‘‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ (nation)یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہل جاہلیت نے قومیت (nationality)کو کبھی خالص تہذیبی بنیادوں (cultural basis)پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اور نہ جدید جاہلیت کے دَور میں۔ ان کے دل و دماغ کے ریشوں میں نسلی اور روایتی علائق کی محبت کچھ اس طرح پلا دی گئی ہے کہ وہ نسلی روابط اور تاریخی روایات کی وابستگی سے قومیت کے تصور کو کبھی پاک نہ کرسکے۔ جس طرح قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلے کے لوگوں پر بولا جاتا تھا اسی طرح آج بھی لفظ ’’نیشن‘‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (Common Descent)کا تصور لازمی طور پر شامل ہے، اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصور اجتماع (Conception of Society)کے خلاف ہے اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اس جماعت کے لیے کیوں کر استعمال کی جاسکتی ہے جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اسی نوع کی دوسری چیزوں کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی، اور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطع نسب اور ترک علائق مادی سے ہوا تھا۔
قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جماعت کے لیے استعمال کیا ہے وہ ’’حزب‘‘ ہے جس کے معنی پارٹی کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اٹھتی ہیں اور پارٹیاں اصول و مسلک کی بنیاد پر۔ اس لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں بلکہ ایک پارٹی ہیں۔ ان کو تمام دنیا سے الگ اور ایک دوسرے سے وابستہ صرف اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ ایک اصول اور مسلک کے معتقد اور پیرو ہیں۔ جن لوگوں سے ان کا اصول و مسلک میں اشتراک ہے وہ خواہ کسی ملک اور کسی قوم و نسل سے تعلق رکھتے ہوں ان میں شامل ہو جاتے ہیں، اور جن سے اس چیز میں ان کا اشتراک نہیں ہے وہ خواہ ان سے قریب ترین مادی رشتے ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، ان کے ساتھ ان کا کوئی میل نہیں ہے قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے، ایک اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) دوسری شیطان کی پارٹی (حزب الشیطان)۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول اور مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلافات ہوں، قرآن سب کو ایک سمجھتا ہے کیونکہ ان کا طریق فکر اور طریق عمل بہرحال اسلام نہیں ہے اور جزئی اختلافات کے باوجودبہر حال وہ سب شیطان کے اتباع پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo المجادلہ: 19:58
شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انھیں غافل کر دیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی آخر کار نامراد ہی رہنے والی ہے۔
برعکس اس کے اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آباو اجداد میں باہم خونی عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں، جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریق فکر اور مسلک حیات میں متفق ہوگئے تو گویا الٰہی رشتے (حبل اللہ) سے باہم جڑ گئے اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹے تک کا تعلق توڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیں پا سکتا۔ حدیث کے الفاظ ہیں لَا یَتَوَاَرَثُ اَھْلُ مِلَّتَیْنِ دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔
پارٹی کا یہ اختلاف بیوی کو شوہر سے جدا کر دیتا ہے حتیٰ کہ اختلاف رونما ہوتے ہی دونوں پر ایک دوسرے کی مواصلت حرام ہو جاتی ہے، محض اس لیے کہ دونوں کی زندگی کے راستے جدا ہو چکے۔ قرآن میں ہے لَاھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلاَ ھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ ، نہ وہ ان کے لیے حلال‘ نہ یہ ان کے لیے حلال۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک برادری، ایک خاندان کے آدمیوں میں پورا معاشرتی مقاطعہ کرا دیتا ہے حتّٰی کہ حزب اللہ والے کے لیے خود اپنی نسلی برادری کے ان لوگوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہو جاتا ہے جو حزب الشیطان سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کہتا ہے :
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن لونڈی مشرک خاتون سے بہتر ہے خواہ وہ تمھیں کتنی ہی پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح بھی مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن غلام مشرک آزاد شخص سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتنا ہی پسند ہو۔
پارٹی کا یہ اختلاف نسلی ووطنی قومیت کا تعلق صرف کاٹ ہی نہیں دیتا بلکہ دونوں میں ایک مستقل نزاع قائم کر دیتا ہے جو دائماً قائم رہتی ہے تاوقتیکہ وہ اللہ کی پارٹی کے اصول تسلیم نہ کرلیں۔ قرآن کہتا ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ
الممتحنہ 4:60
تمھارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ ان لوگوں نے اپنی (نسلی)قوم والوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ ہمارا تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تم سے بے تعلق ہو چکے اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت پڑ گئی تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو۔ مگر تمھارے لیے ابراہیم ؑ کے اس قول میں نمونہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے کافر باپ سے کہا کہ میں تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ۝۰ۭ التوبہ114:9
ابراہیم ؑ کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا تو محض اس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کر چکا تھا، مگر جب اس پر کھل گیا کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے دستبردار ہوگیا۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اور قریب ترین رشتہ داروں کے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشیطان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرےگا اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ…… اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo المجادلہ22:58
تم ایسا ہرگز نہ پائو گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں…… یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔
دوسرا لفظ جو پارٹی ہی کے معنی میں قرآن نے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’اُمّت‘‘ ہے۔ حدیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے مستعمل ہوا ہے۔ امت اس جماعت کو کہتے ہیں جس کو امر جامع نے مجتمع کیا ہو۔ جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک موجود ہو ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’’امت‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک زمانے کے لوگ بھی ’’امت‘‘ کہے جاتے ہیں۔ ایک نسل یا ایک ملک کے لوگ بھی امت کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس امر مشترک کی بنا پر امت کہا گیا ہے وہ نسل یا وطن یا معاشی اغراض نہیں ہیں بلکہ وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اصول اور مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران110:3
تم وہ بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ البقرہ143:2
اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی امت ۱؎ بنایا ہے تاکہ تم نوع انسانی پر نگراں۲؎ ہو اور رسول تم پر نگراں ہو۔
ان آیات پر غور کیجیے۔ ’’بیچ کی امت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ ایک بین الاقوامی جماعت (International Party)ہے۔ دنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکالا گیا ہے جو ایک خاص اصول کو مانتے، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہوں یہ لوگ چونکہ ہر قوم میں سے نکلے ہیں اور ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے بھی ان کا تعلق نہیں رہا ہے۔ اس لیے یہ بیچ کی امت ہیں۔ لیکن ہر ہر قوم سے تعلق توڑنے کے بعد سب قوموں سے ان کا ایک دوسرا تعلق قائم ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں خدائی فوجدار کے فرائض سر انجام دیں۔ ’’تم نوع انسانی پر نگران ہو‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ مسلمان خدا کی طرف سے دنیا میں فوجدار مقرر کیا گیا ہے۔ اور ’’نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔‘‘ کا فقرہ صاف کہہ رہا ہے کہ مسلمان کا مشن ایک عالمگیر مشن ہے۔ اس مشن کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’حزب اللہ‘‘ کے لیڈر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر و عمل کا جو ضابطہ خدا نے دیا تھا اس کو تمام ذہنی، اخلاقی اور مادی طاقتوں سے کام لے کر دنیا میں نافذ کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ہر دوسرے طریقے کو مغلوب کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی بنیاد پر مسلمان ایک امت بنائے گئے ہیں۔
تیسرا اصطلاحی لفظ جو مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’جماعت‘‘ ہے اور یہ لفظ بھی ’’حزب‘‘ کی طرح بالکل پارٹی کا ہم معنی ہے۔ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ اور یَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَماَعَۃِ اور ایسی ہی بکثرت احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’’قوم‘‘ یا ’’شعب‘‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے قصداً احتراز فرمایا اور ان کے بجائے ’’جماعت‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کی۔ آپ نے کبھی نہ فرمایا کہ ’’ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو‘‘ یا ’’قوم پر خدا کا ہاتھ ہے۔‘‘ بلکہ ایسے تمام مواقع پر آپ جماعت ہی کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے اور یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے ’’قوم‘‘ کے بجائے جماعت، حزب اور پارٹی کے الفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً مستعمل ہوتا ہے ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اصول کا پیرو ہو، ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے جبکہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو اور اپنے نام، طرز زندگی اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو۔ لیکن پارٹی،جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوں میں مستعمل ہوتے ہیں، ان کے لحاظ سے اصول و مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔ آپ ایک پارٹی کے اصول و مسلک سے ہٹ جانے کے بعد ہرگز اس میں شامل نہیں رہ سکتے، نہ اس کا نام استعمال کرسکتے ہیں، نہ اس کے نمایندے بن سکتے ہیں، نہ اس کے مفاد کے محافظ بن کر نمودار ہوسکتے ہیں، اور نہ پارٹی والوں سے آپ کا کسی طور پر تعاون ہوسکتا ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں پارٹی کے اصول و مسلک سے تو متفق نہیں ہوں، لیکن میرے والدین اس پارٹی کے ممبر رہ چکے ہیں اور میرا نام ان کے ممبروں سے ملتا جلتا ہے اس لیے مجھے ممبروں کے سے حقوق ملنے چاہییں، تو آپ کا یہ استدلال اتنا مضحکہ خیز ہوگا کہ شاید سننے والوں کو آپ کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے گا۔ لیکن پارٹی کے تصور کو قوم کے تصور سے بدل ڈالیے۔ اس کے بعد یہ سب حرکات کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اسلام نے اپنی بین الاقوامی پارٹی کے ارکان میں یک جہتی اور ان کی معاشرتی زندگی میں یکسانی پیدا کرنے کے لیے اور ان کی ایک سوسائٹی بنا دینے کے لیے حکم دیا تھا کہ آپس ہی میں شادی بیاہ کرو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام تجویز کیا گیا تھا کہ وہ خود بخود پارٹی کے اصول و مسلک کے پیرو بن کر اٹھیں اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ افزائش نسل سے بھی پارٹی کی قوت بڑھتی رہے۔ یہیں سے اس پارٹی کے قوم بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔ بعد میں مشترک معاشرت، نسلی تعلقات اور تاریخی روایات نے اس قومیت کو زیادہ مستحکم کر دیا۔
اس حد تک تو جو کچھ ہوا درست ہوا۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کو بھولتے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی ہیں اور پارٹی ہونے کی حیثیت ہی پر ان کی قومیت کی اساس رکھی گئی ہے۔ یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پارٹی کا تصور قومیت کے تصور میں بالکل ہی گم ہوگیا۔ مسلمان اب صرف ایک ’’قوم‘‘ بن کر رہ گئے ہیں، اسی طرح کی قوم جیسی کہ جرمن ایک قوم ہے یا جاپانی ایک قوم ہے، یا انگریز ایک قوم ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ اصل چیز وہ اصول اور مسلک ہے جس پر اسلام نے ان کو ایک امت بنایا تھا، وہ مشن ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے پیرووں کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کیا تھا۔ اس حقیقت کو فراموش کرکے انھوں نے غیر مسلم قوموں سے ’’قومیت‘‘ کا جاہلی تصور لے لیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی غلطی ہے اور اس کے قبیح اثرات اتنے پھیل گئے ہیں کہ احیائے اسلام کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا جب تک کہ اس غلطی کو مٹا نہ دیا جائے۔
ایک پارٹی کے ارکان میں باہمی محبت، رفاقت اور معاونت جو کچھ بھی ہوتی ہے، شخصی یا خاندانی حیثیت سے نہیں ہوتی، بلکہ صرف اس بنا پر ہوتی ہے کہ وہ سب ایک اصول کے معتقد اور ایک مسلک کے پیروہوتے ہیں۔ پارٹی کا ایک رکن اگر جماعتی اصول اور مسلک سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو صرف یہی نہیں کہ اس کی مدد کرنا پارٹی والوں کا فرض نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس پارٹی والوں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ اس کو ایسے غدارانہ طرز عمل سے روکیں، نہ مانے تو اس کے خلاف جماعتی ضوابط کے تحت سخت کاروائی کریں، پھر بھی نہ مانے تو جماعت سے نکال باہر کریں۔ ایسی مثالیں بھی دنیا میں ناپید نہیں ہیں کہ جو شخص پارٹی کے مسلک سے انحراف کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ۱؎ لیکن ذرا مسلمانوں کا حال دیکھیے کہ اپنے آپ کو پارٹی کے بجائے ’’قوم‘‘ سمجھنے کی وجہ سے یہ کیسی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے غیر اسلامی اصولوں پر کام کرتا ہے تو دوسرے مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ اس کی مددکریں گے۔ اگر مدد نہیں کی جاتی تو شکایت کرتا ہے کہ دیکھو مسلمان مسلمان کے کام نہیں آتے۔ سفارش کرنے والے اس کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوتا ہے اس کی مدد کرو۔ مدد کرنے والے بھی اگر اس کی مدد کرتے ہیں تو اپنے اس فعل کو اسلامی ہمدردی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ہر ایک کی زبان پر اسلامی ہمدردی، اسلامی برادری، اسلام کے رشتۂ دینی کا نام بار بار آتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلام کے خلاف عمل کرنے میں خود اسلام ہی کا حوالہ دینا اور اس کے نام سے ہمدردی کرنا صریح لغوبات ہے۔ جس اسلام کا یہ لوگ نام لیتے ہیں اگر حقیقت میں وہ ان کے اندر زندہ ہو تو جونہی کہ ان کے علم میں یہ بات آئے کہ اسلامی جماعت کا کوئی شخص کوئی کام اسلامی نظریے کے خلاف کر رہا ہے، یہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں اور اس سے توبہ کرا کے چھوڑیں ۔ کسی کا مدد چاہنا اور کسی کا سفارش کرنا تو درکنار، ایک زندہ اسلامی سوسائٹی میں تو کوئی شخص اصول اسلام کی خلاف ورزی کا نام تک زبان پر نہیں لا سکتا۔ لیکن آپ کی اس سوسائٹی میں رات دن یہی معاملہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے اندر جاہلی قومیت آگئی ہے۔ جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کہہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیت کا رشتہ ہے جو آپ نے غیر مسلموں سے لے لیا ہے۔
اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آپ کے اندر ’’قومی مفاد‘‘ کا ایک عجیب تصور پیدا ہوگیا ہے اور آپ اس کو بے تکلف ’’اسلامی مفاد‘‘ بھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد یا قومی مفاد کیا چیز ہے؟ یہ کہ جو لوگ ’’مسلمان‘‘ کہلاتے ہیں ان کا بھلا ہو، ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو، اور کسی نہ کسی طرح ان کی دنیا بن جائے بلا لحاظ اس کے کہ یہ سب فائدے اسلامی نظریے اور اسلامی اصول کی پیروی کرتے ہوئے حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ پیدائشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’’مسلمان‘‘ کہتے ہیں چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرز عمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نام نہیں بلکہ جسم کا نام ہے اور صفت اسلام سے قطع نظر کرکے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ اس غلط تصور کے ساتھ جن جسموں کا اسم ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلام کی ترقی، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سراسر اسلام کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح جرمنیت کسی اصول کا نام نہیں، محض ایک قومیت کا نام ہے اور جس طرح ایک جرمن قوم پرست صرف جرمنوں کی سربلندی چاہتا ہے خواہ کسی طریقے سے ہو، اسی طرح آپ نے بھی ’’مسلمانیت‘‘ کو محض ایک قومیت بنا لیا ہے۔ اور آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سربلندی چاہتے ہیں خواہ یہ سر بلندی اصولاً اورعملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ جاہلیت نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریہ اور ایک عملی پروگرام لے کر اٹھی تھی؟ اس نظریے اور پروگرام کو الگ کر دینے کے بعد محض اپنی شخصی یا اجتماعی حیثیت سے جو لوگ کسی دوسرے نظریے اور پروگرام پر کام کرتے ہیں ان کے کاموں کو آپ ’’اسلامی‘‘ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ جو شخص سرمایہ داری کے اصول پر کام کرتا ہو اسے اشتراکی کے نام سے یاد کیا جائے؟ کیا سرمایہ دارانہ حکومت کو کبھی آپ اشتراکی حکومت کہتے ہیں؟ کیا فاشستی طرز ادارہ کو آپ جمہوری طرز ادارہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں؟ اگر کوئی شخص اس طرح اصطلاحوں کو بے جا استعمال کرے تو آپ شاید اسے جاہل اور بے وقوف کہنے ہیں ذرا تامل نہیں کریں گے۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح کو بالکل بے جا استعمال کیا جارہا ہے اور اس میں کسی کو جاہلیت کی بُو تک محسوس نہیں ہوتی۔
مسلمان لفظ خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ’’اسم ذات‘‘ نہیں بلکہ ’’اسم صفت‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ اور ’’پیروِ اسلام‘‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خاص ذہنی، اخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ لہٰذا آپ اس لفظ کو شخص مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخص ہندو یا شخص جاپانی یا شخص چینی کے یے استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا سا نام رکھنے والا جونہی اصول اسلام سے ہٹا اس سے مسلمان ہونے کی حیثیت خود بخود سلب ہو جاتی ہے۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی شخصی حیثیت میں کرتا ہے، اسلام کا نام اسے استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طور پر مسلمان کا مفاد، ’’مسلمان کی ترقی‘‘، ’’مسلمان کی حکومت و ریاست‘‘، ’’مسلمان کی وزارت‘‘، ’’مسلمانوں کی تنظیم‘‘ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ آپ صرف ان مواقع پر بول سکتے ہیں جبکہ یہ چیزیں اسلامی نظریے اور اصول کے مطابق ہوں اور اس مشن کو پورا کرنے سے متعلق ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی لفظ مسلمان کا استعمال درست نہیں، آپ ان کو جس دوسرے نام سے چاہیں موسوم کریں، بہرحال مسلمان کے نام سے موسوم نہیں کرسکتے، کیونکہ صفت اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان سرے سے کوئی شے ہی نہیں ہے۔ آپ کبھی اس بات کا تصور نہیں کرسکتے کہ اشتراکیت سے قطع نظر کرکے کسی شخص یا قوم کا نام اشتراکی ہو اور اس معنی میں کسی مفادکو اشتراکی مفاد یا کسی حکومت کو اشتراکی حکومت یا کسی تنظیم کو اشتراکیوں کی تنظیم یا کسی ترقی کواشتراکیوں کی ترقی کہا جاسکے۔ پھر آخر مسلمان کے معاملے میں آپ نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان کسی شخص یا قوم کا ذاتی نام ہے اور اس کی ہر چیز کو اسلامی کہہ دیا جاسکتا ہے۔
اس غلط فہمی نے بنیادی طور پر اپنی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنی تاریخ کے متعلق آپ کے رویے کو غلط کر دیا ہے۔ جو بادشاہتیں اور حکومتیں غیر اسلامی اصولوں پر قائم ہوئی تھیں آپ ان کو ’’اسلامی حکومتیں‘‘ کہتے ہیں محض اس لیے کہ ان کے تخت نشین مسلمان تھے۔ جو تمدن قرطبہ و بغداد اور دہلی و قاہرہ کے عیش پرست درباروں میں پرورش پایا تھا آپ اسے ’’اسلامی تمدن‘‘ کہتے ہیں، حالانکہ اس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ آپ سے جب اسلامی تہذیب کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو آپ جھٹ سے آگرہ کے تاج محل کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ گویا یہ ہے اس تہذیب کا سب سے نمایاں نمونہ۔ حالانکہ اسلامی تہذیب سرے سے یہ ہے ہی نہیں کہ ایک میت کو سپرد خاک کرنے کے لیے ایکڑوں زمین مستقل طور پر گھیر لی جائے اور اس پر لاکھوں روپے کی عمارت تیار کی جائے۔ آپ جب اسلامی تاریخ کے مفاخر بیان کرنے پر آتے ہیں تو عباسیوں، سلجوقیوں اور مغلوں کے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی اسلامی تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان کارناموں کا بڑا حصہ آب زر سے نہیں بلکہ سیاہ روشنائی سے جرائم کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کا نام ’’اسلامی تاریخ‘‘ رکھ چھوڑا ہے، بلکہ آپ اسے ’’تاریخ اسلام‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں، گویا ان بادشاہوں کا نام اسلام ہے۔ آپ بجائے اس کے کہ اسلام کے مشن اور اس کے اصول و نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی گزشتہ تاریخ کا احتساب کریں اور پورے انصاف کے ساتھ اسلامی حرکات کو غیر اسلامی حرکات سے ممتاز کرکے دیکھیں اور دکھائیں، اسلامی تاریخ کی خدمت آپ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں کی حمایت و مدافعت کریں۔ آپ کے زاویۂ نظر میں یہ کجی صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ مسلمان کی ہر چیز کو ’’اسلامی‘‘ سمجھتے ہیں اور آپ کا یہ گمان ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ اگر غیر مسلمانہ طریق پر بھی کام کرے تو اس کے کام کو مسلمان کاکام کہا جاسکتا ہے۔
یہی ٹیڑھا زاویۂ نظر آپ نے اپنی ملی سیاست میں بھی اختیار کر رکھا ہے۔ اسلام کے اصول و نظریات اور اس کے مشن سے قطع نظر کرکے آپ ایک قوم کو ’’مسلم قوم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اور اس قوم کی طرف سے، یا اس کے نام سے، یا اس کے لیے، ہر شخص اورہر گروہ من مانی کارروائیاں کرسکتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر وہ شخص مسلمانوں کا نمایندہ، بلکہ ان کا لیڈر بھی بن سکتا ہے جو ’’مسلمانوں کی قوم‘‘ سے تعلق رکھتا ہو، خواہ اس غریب کو اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ ہو۔ آپ ہر اس پارٹی کے ساتھ لگ چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں جس کی پیروی میں آپ کو کسی نوعیت کا فائدہ نظر آئے، خواہ اس کا مشن اسلام کے مشن سے کتنا ہی مختلف ہو۔ آپ خوش ہو جاتے ہیں جب مسلمانوں کو چار روٹیاں ملنے کا کوئی انتظام ہو جائے، خواہ اسلام کی نگاہ میں وہ حرام کی روٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ پھولے نہیں سماتے جب کسی جگہ مسلمان آپ کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے، خواہ وہ اس اقتدار کو بالکل اسی طرح غیر اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہو جس طرح ایک غیر مسلم کرسکتا ہے۔ آپ اکثر ان چیزوں کا نام اسلامی مفاد رکھتے ہیں جو حقیقتاً غیر اسلامی ہیں، ان اداروں کی حمایت اور حفاظت پر اپنا زور صرف کرتے ہیں جو اصول اسلام کے بالکل خلاف قائم ہوئے ہیں، اور ان مقاصد کے پیچھے اپنا روپیہ اور اپنی قومی طاقت ضائع کرتے ہیں جو ہرگز اسلامی نہیں ہیں۔ یہ سب نتائج اسی ایک بنیادی غلطی کے ہیں کہ آپ نے اپنے آپ کو محض ایک قوم سمجھ رکھا ہے اور اس حقیقت کو آپ بھول گئے ہیں کہ دراصل آپ ایک ’’بین الاقوامی پارٹی‘‘ ہیں جس کا کوئی مفاد اور کوئی مقصد اپنی پارٹی کے اصولوں کو دنیا میں حکمران بنانے کے سوا نہیں ہے۔ جب تک آپ اپنے اندر قوم کے بجائے پارٹی کا تصور پیدا نہ کریں گے اور اس کو زندہ تصور نہ بنائیں گے، زندگی کے کسی معاملے میں بھی آپ کا رویہ درست نہ ہوگا۔
(ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۵۸ھ۔ اپریل ۱۹۳۹ئ)

شیئر کریں