(۱) اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (Constitutive Law)کی ضرورت ہے اور شریعت نے اس کے تمام ضوری اصول مقرر کر دیے ہیں۔ ریاست کا اساسی نظریہ کیا ہے؟ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ کون لوگ اس کے شہری ہوسکتے ہیں؟ ان کے حقوق اور واجبات کیا ہیں؟ کس بنیاد پر کسی کو حقوقِ شہریت ملتے اور کس بنا پر وہ سلب ہوسکتے ہیں؟ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کے حقوق و واجبات کیا ہیں؟ ریاست کے قانون اور اختیارات کا ماخذ کیا ہے؟ حکومت کا انتظام کن اصولوں پر چلایا جائے گا؟ انتظامی اختیارات کس کے سپرد کیے جائیں گے؟ اس کا تقرر کون کرے گا؟ کس کے سامنے وہ جواب دہ ہوگا اور کن حدود کے اندر وہ کام کرے گا؟ قانون سازی کے اختیارات کس کو کس حد تک حاصل ہوں گے؟ عدالت کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے؟ دستوری قانون کے ان تمام بنیادی مسائل کا واضح جواب شریعت نے ہم کو دے دیا ہے۔ پھر ان اصولوں کو صاف صاف متعین کرنے کے بعد وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ دستور کی تفصیلی شکل وصورت ہم خود اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق بنالیں۔ ہم اس امر کے پابند تو ضرور کیے گئے ہیں کہ اپنی ریاست کے دستور میں شریعت کے مقرر کیے ہوئے ان اصولوں پر قائم رہیں، لیکن کوئی مفصل دستور ہر زمانے کے لیے ہم کو بنا کر نہیں دے دیا گیا ہے جس کے اندر فروعی رد و بدل بھی جائز نہ ہو۔
(۲) تشکیل کے بعد اسلامی ریاست کو اپنا نظام چلانے کے لیے ایک انتظامی قانون (Administrative Law)کی ضرورت ہے، سو اس کے بھی تمام بنیادی اصول شریعت نے واضح کر دیے ہیں اور مزید برآں اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کے لیے نبی a اور خلفائے راشدین کی مثالی حکومت کےنظائر بھی موجود ہیں۔ ایک اسلامی ریاست اپنی آمدنی کے لیے کس قسم کے ذرائع اختیار کرسکتی ہے اور کس قسم کے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی؟ حکومت کے مواصلات میں کس قسم کے تصرفات درست ہیں اور کس قسم کے نادرست؟ فوج، پولیس، عدالت اور نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں حکومت کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ باشندوں کی اخلاقی اور مادی فلاح کے لیے حکومت پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ کونسی بھلائیاں ہیں جنہیں قائم کرنے اور فروغ دینے کے لیے اسے کوشش کرنی چاہیے اور کونسی برائیاں ہیں، جنہیں روکنا اور دبانا اس کے فرائض میں سے ہے؟ باشندگان ملک کے معاملات زندگی میں حکومت کس حد تک دخل انداز ہونے کی مجاز ہے؟ ان ابمور میں شریعت ہم کو محض اصولی ہدایات ہی نہیں دیتی بلکہ خاص مسائل کے متعلق قطعی اور صریح احکام بھی دیتی ہے۔ لیکن پورے نظم و نسق کے متعلق اس نے کوئی تفصیلی ضابطہ بنا کر ہمیں نہیں دیا ہے جسے ایک ہی شکل و صورت پر ہمیشہ اور ہر زمانے میں قائم رکھنے پر ہم مامور ہوں اور جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کرنے کی ہمیں اجازت نہ ہو۔ دستوری قانون کی طرح انتظامی قانون میں بھی تفصیلی ضوابط بنانے کی پوری آزادی حاصل ہے، البتہ اس آزادی کو ہم ان اصول اور حدود کے اندر ہی استعمال کرسکتے ہیں جو شریعت نے مقرر کر دیے ہیں۔
(۲) اس کے بعد ملکی قانون اور شخصی قانون کے وہ ابواب آتے ہیں جو معاشرے میں امن اور انصاف قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان ابواب میں شریعت اتنے وسیع پیمانے پر ہمیں تفصیلی احکام اور اصولی ہدایات دیتی ہے کہ کسی دَور میں اور معاملات زندگی کے کسی گوشے میں بھی ہم کو اپنی قانونی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے شرعی حدود سےباہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ جو تفصیلی احکام اس نے دیے ہیں وہ اب تک ہر ملک اور ہر دَور کی سوسائٹی میں یکساں صحت کے ساتھ جاری ہوسکتے ہیں (بشرطیکہ زندگی کا وہ مجھموعی نظام بھی، جس میں آپ ان احکام کو جاری کریں، اسلام کی ہدایت پر چل رہا ہو اور جو اصولی ہدایات اس نے دی ہیں وہ اس قدر جامع ہیں کہ قریب قریب اکثر معاملات زندگی میں تمام ضروری قوانین ان کی روشنی میں بنائے جاسکتے ہیں۔ پھر جن معاملات میں شریعت کسی قسم کے احکام اور ہدایات نہیں دیتیخ ان میں خود شریعت ہی کی رُو سے اسلامی ریاست کے اہل الرائے اور اصحاب حل و عقد باہمی مشورے سے قوانین بنانے کے مجاز ہیں اور اس طرح جو قوانین بنائے جائیں گے وہ قانون اسلام ہی کا ایک جز شمار ہوں گے، کیونکہ وہ شریعت کی دی ہوئی اجازت ے تحت بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے فقہا نے استحسان اور مصالح مرسلہ وغیرہ عنوانات کے تحت جو احکام مدون کیے تھے وہ قانونِ اسلام ہی کے اجزا سمجھے گئے۔
(۴) سب سے آخر میں قانون کا ایک شعبہ وہ بھی ہے جس کی ایک ریاست کو اپنے بین الاقوامی تعلقات کے لیے ضرورت پیش آتی ہے۔ اس باب میں شریعت نے جنگ اور صلح اور غیر جابنداری کی مختلف حالتوں کے متعلق اسلامی ریاست کا برتائو متعین کرنے کے لیے بہت تفصیلی ہدایات دی ہیں اور جہاں تفصیلات نہیں دیں وہاں ایسے اصول دے دیے ہیں جن کی روشنی میں تفصیلات مرتب کی جاسکتی ہیں۔