Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی قانون
قانون اور نظامِ زندگی کا باہمی تعلق
نظامِ زندگی کی فکری اور اخلاقی بنیادیں
اسلامی نظامِ زندگی کا ماخذ
اسلام کا نظریۂ زندگی
حق کا بنیادی تصور
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول
شریعت کی ہمہ گیری
نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا
شریعت کا قانونی حصہ
اسلامی قانون کے اہم شعبے
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اعتراضات اور جوابات
پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے؟
فوری انقلاب نہ ممکن ہے نہ مطلوب
تدریج کا اصول
عہدِ نبوی کی مثال
انگریزی دَور کی مثال
تدریج ناگزیر ہے
ایک غلط بہانہ
صحیح ترتیب کار
خاتمۂ کلام

اسلامی قانون

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری

اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمِ قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصور آج تک پھیل سکا ہے، ان میں سے کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں شریعت نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو، یہ رہنمائی کس کس شکل میں کی گئی ہے، اس کا اگر تفصیلی جائزہ لے کر دیکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلامی قانون میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے اور کونسی چیز ابد تک ترقی پذیر ہے اور وہ کس طریقہ سے ہر دَور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔
اس قانون میں جو چیز اٹل ہے وہ تین اجزا پر مشتمل ہے:
(۱) قطعی اور صریح احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں دیے گئے ہیں، مثلاً شراب اور سود اور قمار کی حرمت، چوری اور زنا اور قذف کی سزائیں اور میت کے ترکہ میں وارثوں کے حصے۔
(۲)اصولی احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں بیان ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے، یا یہ کہ لین دین کے جن طریقوں میں منافع کا تبادلہ آپس کی رضامندی سے نہ ہو وہ باطل ہیں، یا یہ کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
(۳) حدود جو قرآن و سنت میں اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہیں کہ ہم اپنی آزادی عمل کو ان کے اندر محدود رکھیں اور کسی حال میں ان سے تجاوز نہ کریں، مثلًا تعداد ازدواج کے لیے بیک وقت چار عورتوں کی حد، یا طلاق کے لیے تین کی حد، یا وصیت کے لیے ایک تہائی مال کی حد۔
اسلامی قانون کا یہ اٹل اور قطعی واجب الاطاعت حصہ ہی دراصل وہ چیز ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کے حدود اربعہ اور اس کی مخصوص امتیازی شکل و صورت کو معین کرتا ہے۔ آپ کسی ایسی تہذیب و تمدن کی نشاندہی نہیں کرسکتے جو اپنے اندر ایک ناقابل تغیر و تبدل عنصر رکھے بغیر اپنی ہستی اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکے۔ اگر کسی تہذیب میں ایسا کوئی عنصر بھی نہ ہو اور سبھی کچھ قابل ترمیم و تنسیخ ہو تو فی الحقیقت وہ سرے سے کوئی مستقل تہذیب ہی نہیں ہے۔ وہ تو ایک پگھلا ہوا مادہ ہے جو ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور ہر وقت اپنی شکل بدل سکتا ہے۔
علاوہ بریں ان احکام اور اصول اور حدود کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے ہر معقول آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ شریعت نے حکم جہاں بھی دیا ہے ایسے موقع پر دیا ہے جہاں انسانی قوتِ فیصلہ غلطی کرکے ’’معروف‘‘ سے ہٹ سکتی ہے۔ ایسے تمام مواقع پر شریعت صاف حکم دے کر، یا صریحاً منع کرکے یا اصول بتا کر، یا حد لگا کر گویا نشانات کھڑے کر دیتی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ صحیح راستہ کس طرف ہے۔ یہ نشانات ہماری رفتار ترقی کو روکنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر لگانے اور ہمارے سفرِ زندگی کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ہیں۔ ان مستقل قوانین کا ایک معتدبہ حصہ ایسا ہے جن پر کل تک دنیا اعتراض کر رہی تھی، مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے تجربات اور تلخ تجربات نے کل کے معترضین کو آج معترف بنا دیا ہے اور انہی قوانین کی خوشہ چینی پر وہ مجبور ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر میں صرف اسلام کے قانون ازدواج اور قانون میراث کی طرف اشارہ کافی سمجھتا ہوں۔
اس قائدار اور اٹل عنصر کے ساتھ ایک دوسرا عنصر ایسا ہے جو اسلامی قانون میں بے اندازہ وسعت پیدا کرتا ہے اور اسے زمانہ کے تمام بدلتے ہوئے حالات میں ترقی پذیر بناتا ہے۔ یہ عنصر کئی اقسام پر مشتمل ہے۔
(۱) تعبیر یا تاویل احکام، یعنی کوئی حکم جن الفاظ میں دیا گیا ہو ان کا مفہوم سمجھنے اور ان کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ فقہ اسلامی کا ایک بہت ہی وسیع بات ہے۔ قانونی دماغ اور نکتہ رس نگاہیں رکھنے والے لوگ جب کتاب و سنت میں غور و خوض کرتے ہیں تو وہ شریعت کے صریح احکام میں بھی مختلف تعبیرات کی گنجائش پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے فہم و بصیرت کے مطابق کسی ایک تعبیر کو بدلائل دوسری تعبیروں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ اختلاف تعبیر پہلے بھی اُمت کے اہلِ علم میں رہا ہے، آج بھی ہو سکتا ہے اور آئندہ بھی یہ دروازہ کھلا رہے گا۔
(۲) قیاس، یعنی جس معاملہ میں کوئی صاف حکم نہ ملتا ہو اس پر کسی ایسے حکم کو جاری کرنا جو اس سے ملتے جلتے کسی معاملہ میں دیا گیا ہو۔
(۳) اجتہاد، یعنی شریعت کے اصولی احکام اور جامع ہدایات کو سمجھ کر ایسے معاملات پر ان کو منطبق کرنا جن میں نظائر بھی نہ ملتے ہوں۔
(۴) استحسان، یعنی مباحات کے غیر محدود دائرے میں حسب ضرورت ایسے قوانین اور ضوابط وضع کرنا جو اسلام کے مجموعی نظام کی روح سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں۔
یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جن کے امکانات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو وہ کبھی اس شبہ میں نہیں پڑ سکتا کہ اسلامی قانون کا دامن کسی وقت بھی انسانی تمدن کی روز افزوں ضروریات اور متغیر حالات کے لیے تنگ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ اجتہاد و استحسان ہو یا تعبیر و قیاس، بہرحال اس کا مجاز ہر کس و ناکس نہیں ہوسکتا۔ آپ ہر راہ رو کا یہ حق تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ ملکی قانون کے کسی مسئلہ پر فیصلہ صادر کر دے۔ اس کے لیے قانونی تعلیم اور ذہنی تربیت کا ایک خاص معیار آپ کے نزدیک بھی ناگزیر ہے جس پر پورا اترے بغیر کوئی شخص ماہرانہ رائے زنی کا اہل نہیں مانا جاسکتا۔ اسی طرح اسلامی قانون کے مسائل پر بھی رائے زنی کا حق صرف ان ہی لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جنہوں نے اس کی ضروری اہلیت بہم پہنچائی ہو۔ تعبیر احکام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کی نزاکتوں سے واقف ہو جس میں احکام دیے گئے ہیں، ان حالات سے واقف ہو جن میں ابتداً یہ احکام دیے گئے تھے، قرآن کے انداز بیان کو اچھی طرح سمجھتا ہو اور حدیث کے ذخیرہ پر وسیع نگاہ رکھتا ہو۔ قیاس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اتنی لطیف قانونی حِس رکھتا ہو کہ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرتے ہوئے ان کی باہمی مماثلت کے پہلوئوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے، ورنہ ایک کا حکم دوسرے پر منطبق کرنے میں وہ غلطی سے نہیں بچ سکتا۔ اجتہاد کے لیے شریعت کے احکام میں گہری بصیرت اور معاملات زندگی کا عمدہ فہم … محض عام فہم ہی نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے فہم… درکار ہے۔ استحسان کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آدمی اسلام کے مزاج اور اس کے نظامِ زندگی کو اچھی طرح سمجھتا ہو تاکہ مباحات کے دائرے میں جو قوانین اور ضوابط وہ تجویز کرے وہ اس نظام زندگی کے مجموعہ میں صحیح طور پر جذب ہوسکیں۔ ان علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ایک اور چیز بھی درکار ہے جس کے بغیر اسلامی قانون کا ارتقا کبھی صحیح خطوط پر نہیں ہوسکتا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کام کو انجام دیں ان کے اندر اسلام کی پیروی کا ارادہ اور خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس موجود ہو۔ یقیناً یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا نہیں ہے جو خدا اور آخرت سے بے پروا ہو کر محض دنیوی مصلحتوں پر نگاہ جما چکے ہوں اور اسلامی قدروں کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کی قدریں پسند کر چکے ہوں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں اسلامی قانون کا ارتقا نہیں ہوسکتا، صرف اس میں تحریف ہی ہوسکتی ہے۔

شیئر کریں