Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

اسلامی ریاست کے رہنما اُصول

(قرآن کی روشنی میں) ۱۔ حکومت کا مقصد
قرآن کی نگاہ میں حکومت کا مقصد نیکی‘ انصاف اور قانونِ الٰہی کا قیام ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo الحج 41:22
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے، اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔
یعنی اللہ کے مدد گار اور اس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انھیں حکومت و فرماں روائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامت ِ صلوٰۃ ہو‘ ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو‘ ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے‘ اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کارفرمائوں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔۲۶۱؎
اس امت کا شرف و امتیاز ہی یہ ہے کہ یہ پوری انسانیت کے لیے حق‘ خیر اور معروف کی داعی بنائی گئی ہے اور اسے انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کام کو انجام دینا ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ
البقرہ 143:2
اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’امت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ’’اسی طرح‘‘ کا اشارہ دونوں طرف ہے، اللہ کی اُس راہ نمائی کی طرف بھی‘ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مرتبے پر پہنچے کہ امت وسط قرار دیے گئے‘ اور تحویل قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں‘ حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سمت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزول کیا اور امت ِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔
’امت وسط‘ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مراد: ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو‘ جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو‘ جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تمھیںامت وسط اس لیے بنایا گیا ہے کہ ’تم لوگوں پر گواہ ہو، اور رسول تم پر گواہ ہو‘ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوع انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا اس وقت رسولؐ ہمارے ذمے دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکر صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی، اور عملاً اس کے مطابق کام کرکے دکھادیا۔ اس کے بعد رسولؐ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسولؐ نے جو کچھ تمھیں پہنچایا تھا وہ تم نے انھیں پہنچانے میں اور جو کچھ رسولؐ نے تمھیں دکھایا تھا وہ تم نے انھیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے لیے خدا ترسی‘ راست روی‘ عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے‘ اسی طرح اس امت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتیٰ کہ اس کے قول اور عمل اور برتائو، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے‘ راست روی یہ ہے‘ عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری بڑی سخت تھی، حتیٰ کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے‘ اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمے داری ہم پر عاید ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت جو تیرے رسولؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخروہاں ہمیں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فتنے اور فساد خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں ان سب کے لیے ائمہ شر اور شیاطین انس و جن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا‘ تو تم کہاں مر گئے تھے؟۲۶۲؎
(ج) كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران110:3
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ وہی مضمون ہے جو سورہ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جارہا ہے کہ دنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نااہلی کے باعث معزول کیے جاچکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کہ اخلاق و عمل کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو، اور تم میں وہ صفات پیدا ہوگئی ہیں جو امامتِ عادلہ کے لیے ضروری ہیں، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ‘ لاشریک کو اعتقادًا و عملاً اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمھارے سپرد کیا گیا ہے اور تمھیں لازم ہے کہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھو اور غلطیوں سے بچو جو تمھارے پیش رو کر چکے ہیں۔۲۶۳؎
(د) لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَo المائدہ78-79:5
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے‘ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ برا طرز عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
ہر قوم کا بگاڑ ابتداء ًچند افراد سے شروع ہوتا ہے۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملے میں تساہل شروع کر دیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انھیں سوسائٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدود تھی پوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کا موجب ہوئی۔۲۶۴؎
(ھ) وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَo المائدہ 35:5
اس کی راہ میں جدوجہد کرو‘ شاید کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو جائے۔
اصل میں لفظ جَاھِدُوْ ا استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم محض ’جدوجہد‘ سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ ’مجاہدہ‘ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں‘ جو تم کو خدا کی مرضی پر چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں‘ جو تم کو پوری طرح خدا کا بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمھیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبور کرتی ہیں‘ ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدوجہد کرو۔ اسی جدوجہد پر تمھاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمھارے تقرب کا دارومدار ہے۔
اس طرح یہ آیت بندۂ مومن کو ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے:
٭ ایک طرف ابلیس لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے۔
٭ دوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں۔
٭ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی‘ تمدنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے۔
٭ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی‘ تمدنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں‘ اور بندگیِ حق کے بجائے بندگی باطل پر انسان کو مجبور کرتے ہیں۔
ان سب کے حربے مختلف ہیں، مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں، بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقربِ خداوندی کے مقام تک اس کے عروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتاً اس کا بندہ بن جائے۔ لہٰذا اپنے مقصود تک اس کا پہنچنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو‘ ہر وقت‘ ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے۔ ۲۶۵؎
اسلامی حکومت کا مزاج
اسلامی حکومت کا ایک مخصوص مزاج ہے۔ یہ حکومت ایک داعی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حکومت اپنے دائرۂ اختیار میں دین کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دنیا کی باقی تمام اقوام کے سامنے اسلام کے پیغام کو پیش کرتی ہے۔ اس حکومت کی حیثیت ایک مبلغ اور معلم کی ہے اور اس کا سارا کام محبت‘ اخوت‘ مشاورت‘ رحم اور ہم دردی کی بنیادوں پر انجام پاتا ہے اور یہی اس کا مخصوص مزاج ہے:
(الف) وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكُوْا۝۰ۭ وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍo وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ الانعام107-108:6
اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو، اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناء پر اللہ کو گالیاںدینے لگیں۔
مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلغ بنایا گیا ہے کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمھارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو اور نہ تمھاری ذمے داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمھارے حلقۂ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انھیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا، مگر وہاں تو مقصود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اورباطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے۔ پس تمھارے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو اس طرف دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انھیں سینے سے لگائو اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو، خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو۔
یہ نصیحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروئوں کوکی گئی ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ مناظرے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقائد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشوائوں اور معبودوں کو گالیاں دینے تک کی نوبت پہنچ جائے‘ کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دور پھینک دے گی۔۲۶۶؎
(ب) فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَo آل عمران159:3
(اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیں تم تند خو اورسنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو‘ البتہ جب تمھاراعزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔
(ج) وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۤۖ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْo العنکبوت42:29
اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے ____ سوائے ان لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں۔
یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ‘ مہذب و شائستہ زبان میں‘ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو، اس کے خیالات کی اصلاح ہوسکے۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملے میں دی گئی ہے، مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے مثلاً:
۱۔ دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پند و نصائح کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ (النحل۱۶: ۱۲۵)
۲۔ بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں۔ (مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی‘ وہ ایسا ہوگیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔ (حم سجدہ۴۱:۳۴)
۳۔ تم بدی کو اچھے ہی طریقے سے دفع کرو‘ ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمھارے خلاف) بناتے ہیں۔ (المومنون۲۳:۹۶)
۴۔ درگزر کی روش اختیار کرو‘ بھلائی کی تلقین کرو اور جاہلوں کے منہ نہ لگو اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے )شیطان تمھیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘(الاعراف۷:۱۹۹۔۲۰۰)
یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہرحال میں اور ہر طرح کے لوگوںکے مقابلے میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیروئوں کو شائستگی‘ شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے، مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا، کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔۲۶۷؎
(د) اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا القصص4:28
واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔
یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں‘ بلکہ اس نے تمدن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے‘ کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمران گروہ ٹھیرایا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر دبایا اور پیسا اور لوٹا جائے۔
یہاں کسی کو یہ شُبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی۔ یہ شبہہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے برعکس نسل‘ رنگ‘ زبان‘ یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے، بلکہ اصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے۔ اسلامی نظام حکومت میں ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے، اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمران جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو۔ اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہو جاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہو جائے۔ آخر اس تفریق میں اور اس فرعونی طرز تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم گروہ کا کوئی فرد کبھی حکمران گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا۔ جس میں محکوم گروہ کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے‘ حتیٰ کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے، جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی‘ تمام فوائد و منافع اور حسنات و درجات صرف حکمران قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں‘ اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمران قوم میں پیدا ہو جائے۔۲۶۸؎
(ھ) يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ النسائ 1:4
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔
چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں‘ اس لیے تمہید اس طرح اٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔
’تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘____ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداء ً ایک فرد سے کی۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدمؑ تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔
’اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا‘____ اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص۳۱۹۔۳۲۰‘ح۱)
(و) لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ البقرہ256:2
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
یہاں دین سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ’ اسلام‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہے ہی نہیں ‘ جو کسی کے سرجبراً منڈھی جاسکے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۱۹۶، ح ۲۸۵)
اوپر کی آیات اور ان کی تشریح سے اسلامی حکومت کے مخصوص مزاج پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد ریاست ہے جو قوتِ قاہرہ کو بھی ہم دردی‘ رحم اور مؤدت کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ جبر جس کا مزاج نہیں، تشدّد جس کے نظام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ یہی وہ ریاست ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بنتی ہے۔
شورائیت
شورائیت بھی اس کے اس مخصوص مزاج ہی کا ایک تقاضا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَاَمْرُ ھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ۔ الشوریٰ38:42
اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔
اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے اور سورہ آل عمران (آیت: ۱۵۹) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں:
٭ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کر دینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو، اس میں ان سب کی رائے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے۔
٭ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں۔ اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جاسکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرکے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی کو عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔
٭ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمے داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پُرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو‘ ان سب کو ‘ یا ان کے اپنے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریکِ مشورہ کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی برانصاف فیصلہ کیا جاسکے‘ اور اگر نادانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمے داری نہ آپڑے۔
یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آسکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے‘ مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بداخلاقی ہے‘ جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انھیں بھی شریکِ مشورہ کیا جائے‘ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے‘ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو تو ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کو چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے اور وہ قومی معاملات کو ایسے صائب الرائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابلِ اعتماد سمجھتی ہو اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایمان دار آدمی زبردستی قوم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کرسکتا‘ نہ یہ فریب کاری کرسکتا ہے کہ پہلے بزور قوم پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے‘ اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں، بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے ملوث ہو اور اس خواہش کے ساتھ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھاسکتا ہے اور نہ ہی خلق اتنی اندھی ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو، اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔
اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے:
٭ اول: یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفادات سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جارہے ہیں اور انھیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بے ایمانی ہے جسے کوئی شخص بھی اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
٭ دوم: یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمے داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی‘ یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی‘ یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقے سے کوشش کرکے اس کا سربراہ بنے‘ بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
٭ سوم: یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوںمیں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دبائو ڈال کر‘ یا مال سے خرید کر‘ یا جھوٹ یا مکر سے کام لے کر، یا لوگوں کو گمراہ کرکے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
٭ چہارم: یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں اور اس طرح کے اظہار رائے کی انھیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو‘ جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے، خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہوگی نہ کہ اَمرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی پیروی۔
٭ پنجم: یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو‘ اسے تسلیم کیا جائے، کیوں کہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’ان کے معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ’اُن کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں‘ ؟اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔
اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات کو چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے، بلکہ لازماً اس دین کی حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’تمھارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کاکام ہے‘ اور تمھارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو۔‘اس قاعدے کلیے کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کس طریقے سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو‘ لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملے کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلے کریں۔۲۶۹؎
عدل و احسان
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ النحل90:16
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔
اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے:
٭ پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک: یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو۔ دوسرے: یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقے سے دیا جائے۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’انصاف‘ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو، اور پھر اسی سے عدل کے معنی: مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افراد معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے مثلاً: حقوق شہریت میں مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے مثلاً: والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات‘ اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمات ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں، بلکہ توازن و تناسب ہے اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ قانونی اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔
٭ دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد ہے: نیک برتائو‘ فیاضانہ معاملہ‘ ہم دردانہ رویہ‘ رواداری‘ خوش خلقی‘ درگزر‘ باہمی مراعات‘ ایک دوسرے کا پاس و لحاظ‘ دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جانا۔ یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کرکے دیکھتا رہے کہ اس کا حق کیا ہے اور اسے وصول کرکے چھوڑے اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی، مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا، جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشو ونما دینے والی قدریں ہیں۔
٭ تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے صلہ رحمی ہے جو رشتے داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے، اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو‘ اور جائز حدود کے اندر اُن کا حامی و مددگار بنے‘ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے، بلکہ اپنے رشتے داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت الٰہی ہر خاندان کے خوش حال افراد کو اس امر کا ذمے دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو، اور اسی کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشر ے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے‘ پھر دوسروں پر ان کے حقوق عاید ہوتے ہیں، اور ہر خاندان کے خوش حال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتے داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق ان پر عاید ہوتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس امر کی تصریح ہے کہ آدمی کے اولین حق دار اُس کے والدین‘ اس کے بیوی بچے اور اس کے بھائی بہن ہیں‘ پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں‘ اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں‘ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمے دار ہوں، اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتے دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا ____ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس معاشرے کا ہر واحدہ (unit)اس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوش حالی‘ معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت‘ اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔
اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں:
٭ پہلی چیز فَحْشَاء ہے جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو‘ فحش ہے۔ مثلاً: بخل‘ زنا‘ برہنگی و عریانی‘ عمل قوم لوط‘ محرمات سے نکاح کرنا‘چوری‘ شراب نوشی‘ بھیک مانگنا‘ گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے‘ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا‘ تہمت تراشی‘ پوشیدہ جرائم کی تشہیر‘ بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے و ڈرامے‘ اور فلم‘ عریاں تصاویر‘ عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا‘ علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور نازو ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔
٭ دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد: ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں‘ اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
٭ تیسری چیز بَغْی ہے جس کے معنی ہیں: اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا‘ خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔۲۷۰؎
قیادت اور اہلِ منصب کے انتخاب کے اصول
اسلامی حکومت میں قیادت کے انتخاب کا اصول بھی دوسری حکومتوں سے بہت مختلف ہے۔ یہاں اصل چیز اہلیت‘ امانت‘ دیانت‘ تقویٰ‘ اور حسنِ سلوک ہے۔
(الف) اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًاo النساء58:4
مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔
یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ: انھوں نے اپنے انحطاط کے زمانے میں امانتیں‘ یعنی ذمے داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے رتبے (positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نااہل‘ کم ظرف‘ بداخلاق‘ بددیانت‘ اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کر نا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِ امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ: وہ انصاف کی روح سے خالی ہوگئے تھے، وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں انھیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اس زمانے میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو بتوں کو پوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے‘ سوتیلی مائوں تک سے نکاح کرلیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ یہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلے میں یہ دوسرا گروہ زیادہ صحیح راستے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، بہرحال بات جب کہو‘ انصاف کی کہو‘ اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔۲۷۱؎
(ب) وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَoالَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَo
الشعراء 151-152:26
ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیںاور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔
یعنی اپنے ان امرا و رئوسا اور ان رہنمائوں اور حاکموں کی اطاعت چھوڑ دو جن کی قیادت میں تمھارا یہ فاسد نظامِ زندگی چل رہا ہے‘ یہ مسرف لوگ ہیں‘ اخلاق کی ساری حدیں پھاند کر شتر بے مہار بن چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ یہ جس نظام کو چلائیں گے اس میں بگاڑ ہی پھیلے گا۔ تمھارے لیے فلاح کی کوئی صورت اگر ہے تو صرف یہ کہ اپنے اندر خدا ترسی پیدا کرو اور مفسدوں کی اطاعت چھوڑ کر میری اطاعت کرو‘ کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں، میری امانت و دیانت کو تم پہلے سے جانتے ہو‘ اور میں ایک بے غرض آدمی ہوں، اپنے کسی ذاتی فائدے کے لیے اصلاح کا یہ کام کرنے نہیں اٹھاہوں____ یہ تھا وہ مختصر منشور جو حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس میں صرف مذہبی تبلیغ ہی نہ تھی‘ تمدنی و اخلاقی اصلاح اور سیاسی انقلاب کی دعوت بھی ساتھ ساتھ موجود تھی۔۲۷۲؎
(ج) وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo الکہف28:18
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
یعنی اس کی بات نہ مانو‘ اس کے آگے نہ جھکو‘ اس کا منشا پورا نہ کرو‘ اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں اطاعت کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
کَانَ اَمْرُہ‘ فُرُطًا کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بگ ٹٹ چلنے والا ہے‘۔دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود ناآشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود ناآشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے، اسی میں مطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔ ۲۷۳؎
دفاع اور اصولِ جنگ و صلح
اسلامی حکومت کی پالیسی کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ وہ ہر اعتبار سے مضبوط ہو۔ عسکری اعتبار سے بھی اور معاشی اعتبار سے بھی۔ جو عظیم ذمے داری اسے ادا کرنی ہے وہ دفاعی قوت کی تیاری کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی:
(الف) وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ الانفال60:8
اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔
اس سے مطلب یہ ہے کہ تمھارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج (standing army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کارروائی کرسکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضاکار اور اسلحہ اورسامانِ رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو‘ دشمن اپنا کام کر جائے۔۲۷۴؎
(ب) اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۝۰ۭ ذٰلِكَ لَہُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo المائدہ 33:5
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں‘ یا سولی چڑھائے جائیں‘ یا اُن کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں‘ یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔
زمین سے مراد یہاں وہ ملک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمے داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کا مطلب اس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے اور اسی لیے اس نے اپنا رسولؐ بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظام قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اس چیز کو جو زمین پر ہے امن بخشے‘ جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے‘ جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہوجائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا‘ قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور راہ زنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کردینے کے لیے ہو‘ دراصل خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جو ہندستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے ’بادشاہ کے خلاف لڑائی‘ (waging war against the king)کامجرم قرار دیا گیا‘ چاہے اس کی کارروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اور بادشاہ اس کی دست رس سے کتنا ہی دور ہو۔
اس آیت میں مختلف سزائیں برسبیل اجمال بیان کر دی گئی ہیں تاکہ قاضی یا امام وقت اپنے اجتہاد سے ہر مجرم کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے۔ اصل مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظام کو الٹنے کی کوشش کرنا بدترین جرم ہے اور اسے ان انتہائی سزائوں میں سے کوئی سزا دی جاسکتی ہے۔۲۷۵؎
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَo التوبۃ 29:9
جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے‘ اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
یہاں ان لوگوں سے جنگ کی اجازت دی گئی ہے جو اس شریعت کو اپنا قانون زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے سے نازل کی ہے۔لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دینِ حق کے پیرو بن جائیں بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خود مختاری اور بالادستی ختم ہو جائے۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحب امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظامِ زندگی کی باگیں اور فرماں روائی اور امامت کے اختیارات متبعین دین حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت‘ تابع و مطیع بن کر رہیں۔
جزیہ بدل ہے اس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔’ہاتھ سے جزیہ دینے‘ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کے ساتھ جزیہ ادا کرنا ہے اور ’چھوٹے بن کر رہنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں‘ بلکہ وہ اہل ایمان بڑے ہوں جو خلافت ِ الٰہی کا فرض انجام دے رہے ہوں۔
ابتداء ً یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انھیں ذمی بنایا۔ اس کے بعد صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔
یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں انیسویں صدی عیسوی کے دور مُذلّت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاو برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہ پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں‘ لیکن انھیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرماں روائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہوگی‘ فساد رونما ہوگا اور اہلِ ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انھیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انھیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دینی پڑتی ہے اور اس قیمت کو اس صالح نظام حکومت کے نظم و نسق پر صرف ہونا چاہیے جو انھیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بدقسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔ ۲۷۶؎
(د) اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ۝۰ۚ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo المائدہ34:5
مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پائو_____ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یعنی اگر وہ سعی فساد سے باز آگئے ہوں اور صالح نظام کو درہم برہم کرنے یا الٹنے کی کوشش چھوڑ چکے ہوں اور ان کا بعد کا طرز عمل ثابت کر رہا ہو کہ وہ امن پسند، مطیع قانون اور نیک چلن انسان بن چکے ہیں اور اس کے بعد ان کے سابق جرائم کا پتہ چلے تو ان سزائوں میں سے کوئی سزا ان کو نہ دی جائے گی جو اوپر بیان ہوئی ہیں‘ البتہ آدمیوں کے حقوق پر کوئی دست درازی اگر انھوں نے کی تھی تو اس کی ذمے داری ان پر سے ساقط نہ ہوگی مثلاً: اگر کسی انسان کو انھوں نے قتل کیا تھا، یا کسی کا مال لیا تھا، یا کوئی اور جرم انسانی جان و مال کے خلاف کیا تھا تو اسی جرم کے بارے میں فوج داری مقدمہ ان پر قائم کیا جائے گا لیکن بغاوت اور غداری اور خدا اور رسولؐ کے خلاف محاربہ کا کوئی مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔۲۷۷؎
معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی پالیسی کے عمومی اُصول
(الف) وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًاo وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًاo رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۝۰ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّہٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًاo وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًاo اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًاo وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْہَا فَقُلْ لَّہُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًاo وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًاo وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًاo وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًاo وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مَنْصُوْرًاo وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۝۰۠ وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًاo وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًاo وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًاo كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْہًاo ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَۃِ۝۰ۭ بنی اسرائیل23-39:17
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: (۱) تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو‘ مگر صرف اس کی۔ (۲) والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک‘ یا دونوں‘ بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو‘ نہ انھیں جھڑک کر جواب دو‘ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو‘ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو‘ اور دعاکیا کرو کہ:’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘۔ تمھارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر متنبہ ہو کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں۔ (۳) رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق (۴) فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (۵) اگر ان سے (یعنی حاجت مند رشتے داروں‘ مسکینوں اور مسافروں سے) تمھیں کترانا ہو‘ اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو‘ تو انھیں نرم جواب دے دو (۶) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔ تیرا رب جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انھیں دیکھ رہا ہے۔ (۷) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔ (۸) زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔ (۹) قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے‘ اس کی مدد کی جائے گی (۱۰) مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو، مگر احسن طریقے سے‘ یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ (۱۱) عہد کی پابندی کرو‘ بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (۱۲) پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہتر ہے (۱۳) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ‘ کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔ (۱۴) زمین میں اکڑ کر نہ چلو‘ تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ ان امور میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں۔
یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جارہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے‘ مدنی دور کے نقطۂ آغاز پر پیش کیا گیا‘ تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری‘ اخلاقی‘ تمدنی‘ معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔۲۷۸؎
۱۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو‘ اُسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ‘ اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے، بلکہ اس پورے نظامِ اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ‘ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔
۲۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدّم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع‘ خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو‘ بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے‘ اور بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کر چکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آداب تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی‘ نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔
۳۔۵۔ ان تین دفعات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور اپنی دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے‘ بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتے داروں‘ اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجت مند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے تاکہ اجتماعی زندگی میں تعاون‘ ہم دردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتے دار دوسرے رشتے دار کا معاون‘ اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے‘ اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو‘ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے‘ نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تاکہ وہ بندگانِ خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔
منشور اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں‘ بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انھی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ کے احکام دیے گئے‘ وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے‘ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا‘ ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی‘ ہم دردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہوگئی‘ حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ماسوا ان اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنھیں نہ قانون کے زور سے مانگا جاسکتا ہے‘ نہ دلوایا جاسکتا ہے۔
۶۔ ہاتھ باندھنا استعارہ ہے: بخل کے لیے‘ اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے: فضول خرچی۔ دفعہ ۴ کے ساتھ دفعہ ۶ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سے منشا صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے برعکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بے جا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہوں۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ‘ عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ‘ اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہا دیں‘ دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت‘ اجتماعی دبائو اور قانونی پابندیوں کے ذریعے سے بے جا صرف مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو اَزرُوئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا صَرفِ مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعے سے ان بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعے سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰۃ و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زراندوزی کرکے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام پیدا کی گئی جو فیاضی اور فضول خرچی کا فرق ٹھیک ٹھیک جانتی تھی اور بخل اور اعتدال میں خوب تمیز کرتی تھی۔ اس رائے عامہ نے بخیلوں کو ذلیل کیا، اعتدال پسندوں کو معزز بنایا‘ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گل سرسبد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہیں۔
اسی سلسلے میں یہ بات بھی سمجھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا‘ لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے۔ فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا‘ یا اس نامساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا‘ دونوں ہی یکساں غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریقِ تقسیمِ رزق سے قریب تر ہو۔
اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پاسکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرۃ اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر برقرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی‘ روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔
۷۔ فقرہ نمبر ۷ان معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کردیتا ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے۔افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتل اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا‘ اور آج وہ ایک تیسری تدبیر یعنی منعِ حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے، لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رُو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے‘ بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے‘ بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے‘ اتنے ہی بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔
۸۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ اس حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں‘ اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لیے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں‘ بلکہ زنا کے مقدّمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دور رہیں جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ رہا معاشرہ‘ تو اس حکم کی رُو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا اور محرکاتِ زنا‘ اور اسبابِ زنا کا سدباب کرے اور اس غرض کے لیے قانون سے‘ تعلیم و تربیت سے‘ اجتماعی ماحول کی اصلاح سے‘ معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے۔
یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی۔ اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمت ِ زنا کو فوج داری جرم قرار دیا گیا‘ پردے کے احکام جاری کیے گئے‘ فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا‘ شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر( جو زنا کے قریب ترین رشتے دار ہیں) بندشیں لگائی گئیں‘ اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہوگیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔
۹۔ قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں‘ بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس‘ جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے‘ اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتل انسان ہے‘ اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک‘ اور اپنی اس ملکیت کو بَہ اختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے‘ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے‘ اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار‘ اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے‘ اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے‘ خواہ حالات امتحان اچھے ہوں یا برے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصدًا ختم کرکے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے‘ کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرم عظیم کے ذریعے سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔
اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا ہے:
٭ ایک: قتل عمد کے مجرم سے قصاص۔
٭ دوسرے: دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والے سے جنگ۔
٭ تیسرے: اسلامی نظامِ حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔
٭ چوتھے: شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا۔
٭ پانچویں: اِرتداد کی سزا۔
صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔
اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں، بلکہ اولیائے مقتول ہیں‘ اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خون بہا لینے پر راضی ہوسکتے ہیں۔
قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً: جوشِ انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا‘ یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا‘ یا مار دینے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالنا‘ یا خون بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔
چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کاکام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ عدالت کاکام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے۔
۱۰۔یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی‘ دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: اَنَا وَلِیٌّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہ‘ (مشکوۃ ۲۹۲۰)میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو، اسی طرف اشارہ کرتا ہے‘ اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔
۱۱۔ یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی و خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرایا گیا۔
۱۲۔یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی‘ بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ بات حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تَطفِیف۲۷۹؎ کو بزور بند کر دے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سدباب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔
۱۳۔اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میںوہم و گمان کے بجائے علم کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں‘ قانون میں‘ سیاست اور انتظام ملکی میں‘ علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں‘ غرض ہر شعبۂ حیات میں کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کردیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلاتحقیق کوئی الزام نہ لگائو۔ قانون میں یہ مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شبہے پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتائو میں یہ پالیسی متعین کردی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں، نظامِ تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لاطائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسولؐ کے دیے ہوئے علم کی رُو سے ثابت ہو۔
۱۴۔اس فقرے میں ہدایت کی گئی کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے‘ دونوں پر یکساں حاوی ہے، اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں روائوں‘ گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ عین حالت جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی۔ ان کی نشست و برخاست‘ چال ڈھال‘ لباس‘ مکان‘ سواری اور عام برتائو میں انکسار و تواضع‘ بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی‘ اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور تَبَخْتُرسے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے۔
آخر میں ارشاد ہوا کہ ان میں سے جو چیزبھی ممنوع ہے اس کا ارتکاب اللہ کو ناپسند ہے یا دوسرے الفاظ میں‘ جس حکم کی بھی نافرمانی کی جائے وہ ناپسندیدہ ہے۔۲۸۰؎
ریاست کی تعلیمی پالیسی کے متعلق یہ ہدایت بھی قرآن دیتا ہے کہ:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَo التوبہ 122:9
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے‘ مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔
اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے رکوع۱۲ کی وہ آیت پیشِ نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملے میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کیا ہے۔(التوبہ۹:۹۷)
وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دارالاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیش تر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں‘ علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہلِ علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں۔ اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے‘ بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں ہے کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آجائیں اور یہاں علم حاصل کریں۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں‘ مثلاً: مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں‘ پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں۔
یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی۔ ابتدا میں جب کہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا‘ اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی، کیونکہ اُس وقت اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا، مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہوگیا تو آبادیاں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں‘ جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے‘ ورنہ بیش تر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے۔ نومسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلائو بظاہر تو اسلام کے لیے سبب ِ قوت تھا‘ کیوں کہ پیروانِ اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی‘ لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ الٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو، اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ چنانچہ یہ نقصان غزوۂ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آگیا تھا۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی یہ توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کے مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے‘ اور وہ یہ ہے کہ ہر حصۂ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے‘ پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاکر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں‘ یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا، بلکہ واضح طور پر اس کا مقصد حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کردیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویۂ زندگی سے بچنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو، ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن سٹائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویۂ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے۔
اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہوگئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدت سے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہْ فِی الدِّیْنکو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں: دین کو سمجھنا‘ اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا‘ اس کے مزاج اور اس کی روح سے آشنا ہونا اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کون سا طریق فکر اور کون سا طرز عمل روحِ دین کے مطابق ہے۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اصطلاحاً فقہ کے نام سے موسوم ہوا، اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلہ روح) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا‘ لوگوں نے اشتراک لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الٰہی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ وہ کل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جز مقصود تھا۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروانِ دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے‘ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصراً اتنا اشارہ کیے دیتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روحِ دین سے خالی کرکے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا‘ اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نری بے جان ظاہر داری‘ دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی‘ وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے۔۲۸۱؎
شہریت اور خارجہ پالیسی
(الف) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo الانفال72:8
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی‘ وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) آ نہیں گئے تو ان سے تمھاراولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمھارامعاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔
یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’ولایت ‘ کا تعلق صرف ان مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں‘ یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کرکے آ جائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدود ارضی سے باہر ہوں‘ تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرورقائم رہے گی‘ لیکن ولایت کا تعلق نہ ہو گا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دارالکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں۔
ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت‘ نصرت‘ مددگاری‘ پُشتی بانی ‘ دوستی‘ قرابت‘ سرپرستی‘ اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے، اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے‘ اور شہریوں کا اپنی ریاست سے‘ اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت دستوری و سیاسی ولایت کو ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے‘ اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتے سے خارج قرار دیتی ہے۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفصیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے‘ ایک دوسرے کے قانونی ولی (guardian)نہیں بن سکتے‘ باہم شادی بیاہ نہیں کرسکتے‘ اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاںذمے داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارا لکفر سے شہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمے داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہوں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمے داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ:
اَنَا بَرِیْ ٌٔ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ ظھرانی الْمُشْرِکِیْنَ ۔ (ابودائود، ترمذی، نسائی)
میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمے دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔
اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیوں کہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔
اوپر کے فقرے میں دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو’سیاسی ولایت‘ کے رشتے سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ بعد کا فقرہ اس امر کی توضیح کرتا ہے کہ اس رشتے سے خارج ہونے کے باوجود وہ ’دینی اخوت‘ کے رشتے سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بناء پر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمے داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جاسکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمے داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔
آیت میں معاہدے کے لیے ’میثاق ‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ وُثوق ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میثاق ہر اُس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے‘ قطع نظر اس سے کہ ہمارا اس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد و پیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
پھر آیت میں بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیْثَاقٌ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں‘ یعنی ’تمھارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو‘۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاقی ذمے داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمے داریوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبکدوش رہیں، البتہ حکومت دارالاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف ان مسلمانوں پر ہی عاید ہوں گی جو اس حکومت کے دائرۂ عمل میں رہتے ہوں۔ اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمے داریوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیرؓ اور ابوجندلؓ اور ان دوسرے مسلمانوں پر عاید نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے۔۲۸۲؎
(ب) وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ الانفال: 58:8
اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو۔
اس آیت کی رُو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو، اور ہمیں اس کے طرز عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہا ہے یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کر دیں جو معاہدہ نہ ہونے کی صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کارروائی کرنے سے پہلے فریقِ ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا تاکہ فسخِ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الٰہی کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ:
مَنْ کَانَ بَیْنَہ‘ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَھْدٌ فَلاَ یَحُلَّنَّ عُقْدَہ‘ حَتّٰی یَنْقَضِیَ اَمَدُھَا اَوْ یَنْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَائٍ۔
(ابودائود، ترمذی)
جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اُسے چاہیے کہ معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے، یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے۔
پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ: لَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ ’جو تیری خیانت کرے تو اس کی خیانت نہ کر‘اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہؓ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقے پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کارروائی پر عمروؓ بن عبسہ صحابی نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدے کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرزِ عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہؓ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔
یک طرفہ فسخ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانۂ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالیں جنگ عظیم دوم میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کارروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عموماً اس کارروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملے سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا‘ یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا۔ لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمے داریوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جاسکتا ہو۔ ہر چور‘ ہر ڈاکو‘ ہرزانی‘ ہر قاتل‘ ہر جعل ساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کرسکتا ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے ان کے بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سوسائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔
اس موقع پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی الاعلان معاہدے کو توڑ چکا ہو، اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کارروائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتاکہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کارروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خزاعہ کے معاملے میں صلح حدیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تھا تو آپؐ نے پھر انھیں فسخِ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدۂ استثنا سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کارروائی کی تھی تاکہ پیروی ہو تو آپؐ کے پورے طرز عمل کی ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جز کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ:
اولاً: قریش کی خلاف ورزی ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔ خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انھوں نے خود ابوسفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ ان کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقض عہد قوم کو خود بھی اپنے نقضِ عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔
ثانیاً: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صَرَاحَۃً یا اشارۃ ً وکِنَایَۃً ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے یہ ایما نکلتا ہو کہ اس بدعہدی کے باوجود آپ ابھی تک ان کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابوسفیان نے مدینہ آکر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپؐ نے اسے قبول نہیں کیا۔
ثالثاً :قریش کے خلاف جنگی کارروائی آپؐ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپؐ کے طرز عمل میں نہیں پایا جاتا کہ آپؐ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔
یہ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ہے۔ لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقے سے کی جاسکتی ہے جو حضورؐ نے اختیار فرمایا تھا۔
مزید برآں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملے میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت و شنید اور بین الاقوامی ثالثی کے ذریعے سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تلا ہوا ہے تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں، لیکن آیت مذکورہ بالا ہم پر یہ اخلاقی ذمے داری عاید کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کارروائیاں کرنا جن کاعلانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں‘ ایک بداخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے۔۲۸۳؎
(ج) فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَo الانفال 57:8
پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں‘ ان کے حواس باختہ ہو جائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو، اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمے داریوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے‘ تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہ کریں گے‘ کیونکہ انھوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملے میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے۔۲۸۴؎
(د) وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝۰ۭ الانفال61-62:8
اور اے نبی! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے جھک جائو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ یقیناً اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔
یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمھاری پالیسی بُزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسے پر بہادرانہ اوردلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوئے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے‘ بے تکلف اس کے لیے تیار ہو جائو اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا، بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی کی نیت بہرحال یقینی طور پر معلوم نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ واقعی صلح ہی کی نیت رکھتا ہو تو تم خواہ مخواہ اس کی نیت پر شبہ کرکے خون ریزی کو طول کیوںدو، اور اگر وہ غدر کی نیت رکھتا ہو تو تمھیں خدا کے بھروسے پر بہادر ہونا چاہیے۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھائو، تاکہ تمھاری اخلاقی برتری ثابت ہو اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تاکہ کبھی کوئی غدار قوم تمھیں نرم چارہ سمجھنے کی جرأت نہ کرے۔۲۸۵؎
اوپر کے صفحات میں جو آیات اور ان کی تشریح پیش کی گئی ہے وہ قرآن کے سیاسی تصورات اور اسلامی حکومت کے رہنما اصولوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ قرآن نے اس شعبۂ زندگی کے بارے میں واضح اوردو ٹوک ہدایات دی ہیں۔ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات ان ہدایات کی روشنی میں طے کریں۔ صرف اس طرح وہ اپنے دین و ایمان کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔

شیئر کریں