اسلام کے غیر تحریری دستور کے مآخذ چار ہیں:۔
۱۔ قرآن مجید
اس کا سب سے پہلا مآخذ قرآن مجید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے فرامین موجود ہیں۔ یہ احکام و فرامین انسان کی پوری زندگی کے معاملات پر حاوی ہیں۔ صرف انفرادی کردار اور سیرت ہی کے بارے میں ہدایات نہیں دی گئی ہیں بلکہ اجتماعی زندگی (Socal Life) کے بھی ہر پہلو کو اصلاح و تنظیم کے لیے کچھ اصول اور کچھ تعلیمی احکام دیے گئے ہیں، اور اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی ریاست کن اصولوں اور کن مقاصد کے لیے قائم کریں۔
۲۔ سنت ِرسول ﷺ
دوسرا مآخذ سنتِ رسولؐ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو اور اس کے دیے ہوئے اصولوں کو عرب کی سرزمین میں کس طرح نافذ کیا، کس طرح اسلام کے تخیّل کوعمل کا جامہ پہنایا، کِس طرح اس تخیل پر ایک سوسائٹی کی تشکیل کی، اور اس اسٹیٹ کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلا کر بتایا۔ یہ چیزیں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہمیں معلوم ہو سکتی ہیں اور انھی کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قرآن کا ٹھیک ٹھیک منشا کیا ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے اصولوں کا عملی حالات پر انطباق (Application) ہے جس سے ہم کو اسلامی دستور کے لیے نہایت قیمتی نظائر (Precedents) حاصل ہوتے ہیں‘ اور دستوری روایات (Constitutional Traditions) کا بڑا اہم مواد بہم پہنچتا ہے۔
۳۔ خلافت راشدہ کا تعامل
تیسرا مآخذ خلافتِ راشدہ کا تعامل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی سٹیٹ کو خلفائے راشدین نے جس طرح چلایا، اس کے نظائر اور اس کی روایات سے حدیث، تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلام میں یہ اصول شروع سے آج تک مسلّم رہا ہے کہ دینی احکام و ہدایات کی جو تعبیریں صحابۂ کرامؓ نے بالاتفاق کی ہیں (جسے اصطلاح میں اجماع کہا جاتا ہے) اور دستوری وقانونی مسائل کے جو فیصلے خلفائے راشدین نے صحابہ کے مشورے سے کر دیے ہیں وہ ہمارے لیے حجت ہیں، یعنی ان کو جوں کا توں تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ صحابہؓکے کسی معاملے میں متفق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک مستند تعبیرِ قانون اور معتبر طریقِ عمل ہے۔ جہاں ان کے درمیان اختلافات ہوئے ہیں وہاں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہے اور ایسے معاملات میں دلیل سے ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح د ی جا سکتی ہے۔ مگر جہاں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔ وہاں ان کا فیصلہ لازماً ایک ہی تعبیر اورایک ہی طرزِ عمل کو صحیح ومستند ثابت کر دیتا ہے، کیونکہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست شاگرد اور تربیت یافتہ تھے اوران سب کا متفق ہو کر دین کے معاملے میں غلطی کر جانا یا دین کے سمجھنے میں راہِ صواب سے ہٹ جانا قابلِ تسلیم نہیں ہے۔
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
چوتھا ماخذ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم وبصیرت کی روشنی میں کیے ہیں۔ یہ چاہے حجت نہ ہوں، مگر بہرحال اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ ہیں ہمارے دستور کے چار مآخذ۔ ہم جب کبھی اسلامی حکومت کا دستور تحریری شکل میں لانا چاہیں، ہم کو انھی مآخذ سے اس کے قواعد جمع کرکے مرتب کرنے ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے انگلستان کے لوگ اگر آج اپنا دستور مدوّن کرنا چاہیں تو انھیں اپنے وضعی قانون (Statute LaW) اور عرفی قانون (Common Law) اور اپنے دستوری رواج (Constitutional Usage) سے ایک ایک جزیۂ اخذ کرکے صفحۂ کاغذ پر ثبت کرنا ہو گا اور بہت سے دستوری احکام وقواعد ان کو اپنی عدالتوں کے فیصلوں سے چن چن کر نکالنے ہوں گے۔