Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی انقلاب کی سبیل

اسلامی حکومت کی اس نوعیت کو ذہن میں رکھ کر غور کیجیے کہ اس منزل تک پہنچنے کی کیا سبیل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ میں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں، کسی سوسائٹی میں جس قسم کے فکری، اخلاقی، تمدنی اسباب و محرکات فراہم ہوتے ہیں ان کے تعامل سے اسی قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک درخت اپنی ابتدائی کونپل سے لے کر پورا درخت بننے تک تو لیموں کی حیثیت سے نشوونما پائے مگر بارآوری کے مرحلے پر پہنچ کر یکایک آم دینے لگے۔ اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات، وہ مقصدِ زندگی، وہ معیارِ اخلاق وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔ اس سے مسلم سائنٹسٹ، مسلم فلسفی، مسلم مورخ، مسلم ماہرین مالیات و معاشیات، مسلم ماہرین قانون، مسلم ماہرین سیاست، غرض ہر شعبۂ علم و فن میںایسے آدمی پیدا ہوں جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں، جن میں یہ قابلیت موجود ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصول پر مرتب کرسکیں اور جن میںاتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخدا شناس ائمہ فکر کے مقابلہ میں اپنی عقلی و ذہنی سیادت (intellectual leadership)کا سکہ جما دیں۔ ۱؎ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجد کرے جو گرد و پیش کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھا کر، سختیاں جھیل کر، قربانیاں کرکے، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں جسے پرکھنے والا ہر طرح جانچ کر بے کھوٹ کامل العیار سونا ہی پائے۔ اپنی لڑائی کے دوران میں وہ اپنے ہر قول اور ہر فعل سے اپنی اس مخصوص آئیڈیالوجی کا مظاہرہ کریں جس کے علم بردار بن کر وہ اٹھے ہیں۔ ان کی ہر بات سے عیاں ہو کہ واقعی ایسے بے لوث، بے غرض، راست باز، پاک سیرت، ایثار پیشہ، با اصول خدا ترس لوگ انسانیت کی فلاح کے لیے جس اصولی حکومت کی طرف دعوت دے رہے ہیں، اس میں ضرور انسان کے لیے عدل اور امن ہوگا اس طرح کی جدوجہد سے سوسائٹی کے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ بھی نیکی اور راستی موجود ہے، اس تحریک میں کھنچ آئیں گے۔ پست سیرت لوگوں اور ادنیٰ درجہ کے طریقوں پر چلنے والوں کے اثرات اس تحریک کے مقابلہ میں دبتے چلے جائیں گے۔ عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہوگا۔ اجتماعی زندگی میںاس مخصوص نظامِ حکومت کی پیاس پیدا ہو جائے گی جس کے لیے اس طور پر زمین تیار کی گئی ہوگی اور سوسائٹی کے اس بدلے ہوئے ماحول میں کسی دوسرے طرز کے نظامِ حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جوں ہی کہ وہ نظام قائم ہوگا اسے چلانے کے لیے ابتدائی اہل کاروں سے لے کر وزرا اور نظما تک ہر درجہ کے مناسب کل پرزے اس نظامِ تعلیم و تربیت کی بدولت موجود ہوں گے، جس کا ذکر میں ابھی کر چکا ہوں۔
حضرات! یہ ہے اس انقلاب کے ظہور اور اس حکومت کی پیدائش کا فطری طریقہ جسے اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔ آپ سب اہل علم لوگ ہیں۔ دنیا کے انقلابات کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ایک خاص نوعیت کا انقلاب اسی نوعیت کی تحریک اسی نوعیت کے لیڈر اور کارکن اور اسی نوعیت کا اجتماعی شعور اور تمدنی و اخلاقی ماحول چاہتا ہے۔ انقلابِ فرانس کو وہی خاص اخلاقی و ذہنی اساس درکار تھی جو روسو، والٹیر اور مانٹسکیو جیسے لیڈروں نے تیار کی۔ انقلاب روس صرف مارکس کے افکار، لینن اور ٹرائسکی کی لیڈر شپ اور ان ہزار ہا اشتراکی کارکنوں ہی کی بدولت رونما ہوسکتا تھا۔ جن کی زندگی اشتراکیت کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔ جرمنی کا نیشنل سوشلزم اس مخصوص اخلاقی، نفسیاتی اور تمدنی زمین ہی میں جڑ پکڑ سکتا تھا جسے ہیگل، فشتے، گوئتھے، نیتشے اور بہت سے مفکرین کے نظریات اور ہٹلر کی لیڈر شپ نے تیار کیا۔ اسی طرح سے اسلامی انقلاب بھی صرف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت وَر جدوجہد سے بدل ڈالے۔ یہ بات کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتی کہ قوم پرستانہ نوعیت کی کوئی تحریک جس کا پس منظر یہ ناقص نظام تعلیم ہو جو اس وقت ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد افادی اخلاقیات (utilitarian morals)اور مصلحت پرستی (pragmatism)پر ہو اسلامی انقلاب آخر کس طرح برپا کرسکتی ہے؟ میں اس قسم کے معجزات پر یقین نہیں رکھتا جس پر فرانس کے سابق وزیر موسیور نیویقین رکھتے ۱؎تھے۔ میں تو اس کا قائل ہوں کہ جیسی تدبیر کی جائے گی ویسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔

شیئر کریں