اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں:
اس کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسے اپنی ذات پر خرچ کرے۔ اس خرچ پر اسلام ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جن سے وہ آدمی نے اپنے اخلاق اور معاشرے کے لیے کسی طرح نقصان دہ نہ ہوسکے۔وہ شراب نہیں پی سکتا۔ زنا نہیں کرسکتا۔ جوئے بازی میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتا۔ عیاشی کی کوئی خلافِ اخلاق صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ سونے چاندی کے برتن استعمال نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ اگر رہن سہن میں وہ بہت زیادہ شان و شوکت اختیار کرے تو اس پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس کا کم و بیش کوئی حصہ بچالے اور اس کو روک رکھے۔ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ جو دولت بھی کسی کے پاس پہنچ گئی ہے وہ رک کر نہ رہ جائے بلکہ جائز طریقوں سے گردش میں آتی رہے۔ رکی ہوئی دولت پر ایک خاص قانون کے مطابق اسلام زکوٰۃ عائد کرتا ہے تا کہ اس کا ایک حصہ لازماً محروم طبقات اور اجتماعی خدمات کے لیے استعمال ہو۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جن افعال کی اس میں سخت مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ آدمی خزانے جمع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ کہتا ہے کہ جو لوگ سونے اور چاندی کے ذخیرے جمع کرتے ہیں ان کا جمع کیا ہوا سونا اور چاندی جہنم میں ان کو داغنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت خدا نے نوعِ انسانی کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ اسے بند کر کے رکھ لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ آپ جائز ذرائع سے کمایئے، اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور پھر جو کچھ بچے اسے کسی نہ کسی طرح جائز طریقے سے گردش میں لایئے۔
اسی لیے اسلام احتکار کو بھی منع کرتا ہے۔احتکار کے معنی یہ ہیں کہ آپ اشیائے ضرورت کو قصداً روک کر رکھیں تا کہ بازار میں ان کی رسد کم ہو اور قیمتیں چڑھ جائیں۔ یہ حرکت اسلامی قانون میں حرام ہے۔ آدمی کو سیدھی طرح تجارت کرنی چاہیے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مال بیچنے کے لیے موجود ہے اور بازار میں اس کی مانگ ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ آپ اسے فروخت کرنے سے انکار کریں۔ جان بوجھ کر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا کرنے کے لیے فروخت سے انکار کر دینا آدمی کو تاجر کے بجائے لٹیرا بنا دیتا ہے۔
اسی بناء پر اسلام بے جا نوعیت کی اجارہ داریوں کا بھی مخالف ہے، کیوں کہ وہ وسائل معاش سے عام لوگوں کے استفادے میں مانع ہوتی ہیں۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کسبِ معیشت کے کچھ مواقع اور ذرائع بعض خاص اشخاص یا خاندانوں یا طبقوں کے لیے مخصوص کر دیئے جائیں اور دوسرے اگر اس میدان میں آنا چاہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی جائے۔ اجارہ داری اگر کسی نوعیت کی جائز ہے تو صرف وہ جو اجتماعی مفاد کے لیے بالکل ناگزیر ہو، ورنہ اصولاً اسلام یہ چاہتا ہے کہ جدوجہد کا میدان سب کے لیے کھلا رہے اور ہر شخص کو اس میں ہاتھ پائوں مارنے کے مواقع حاصل رہیں۔
بچی ہوئی دولت کو اگر کوئی شخص مزید دولت کمانے میں استعمال کرنا چاہے تو یہ استعمال صرف ان طریقوں سے ہوسکتا ہے جو کسبِ معیشت کے لیے اسلام میں حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ حرام طریقے، جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، اس غرض کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے۔