Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

استدراک

اس مضمون کی اشاعت کے بعد اہل حدیث حضرات کی طرف سے اس پر جو اعتراضات ہوئے ہیں، اور ان پر میری طرف سے جو جوابات دئیے گئے ہیں ان کو یہاں نقل کر دینا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
ایک اہلحدیث دوست کے سوالات:
الف۔ مسلمانوں کا چاروں فقہوں کو ماننا کس نص کے ماتحت ہے؟
ب۔ اسناد حدیث اور تفقُّہ مجتہدین میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے؟
ج۔ تفقُّہ مجتہد اور اسناد حدیث میں سے کس میں زیادہ ظنیت ہے؟
د۔ محدث اور فقیہ ایک ہی آدمی ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اور اسے نرے محدث یا نرے فقیہ پر فضیلت ہے یا نہیں؟
ر۔ کوئی نظیر بتائیں کہ امام ابو حنیفہ نے متن کو ملحوظ رکھ کر ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا اور قوی الاسناد حدیث کو چھوڑا ہو۔
س۔ کیا یہ قول ائمہ کہ ان کے فیصلوں کے مقابلے میں قوی الاسناد حدیث ہی قابل قبول ہے صحیح ہے؟
ص۔ درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کر دیا جائے؟ نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟
ط۔ کیا کسی مسلمان کو یہ حق ہے کہ خدا اور رسول کا حکم ظن غالب کے بموجب اسے پہنچے اور اس میں درایت کی مداخلت کرکے اس سے گریز کرے اور اپنے تفقُّہ کی بنا پر اس کی مخالفت کرے، جبکہ اس کے تفقُّہ میں بھی خطا کا امکان ہے؟
جواب:(الف) چاروں فقہوں کو برحق ماننا کسی نص کے ماتحت نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ چار فقہی مذاہب کتاب و سنت سے استنباط کرنے کے ان اصولوں کو اختیار کرتے ہیں جن کے لیے شریعت میں گنجائش اور بنیاد موجود ہے۔ چاہے جزئی امور میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف ہو اور جزئی امور میں ان سے اختلاف کرنے کے لیے کتنے ہی معقول وجوہ موجود ہوں، لیکن اصولاً استنباط احکام کے وہی طریقے ان مذاہب میں استعمال کیے گئے ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور جن سے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استنباط مسائل میں کام لیا تھا۔
ب: اسناد حدیث اور تفقہ مجتہد میں سے کسی کو کسی پر مطلقاً تفوُّق نہیں دیا جاسکتا۔ اسناد حدیث اس بات کی ایک شہادت ہے کہ جو روایت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو پہنچ رہی ہے وہ کہاں تک قابل اعتبار ہے۔ اور تفقہ مجتہد ایک ایسے شخص کی تحقیقی رائے (research)ہے جو کتاب و سنت میں گہری بصیرت رکھنے کے بعد ایک رپورٹ کے متعلق اندازہ کرتا ہے کہ وہ کہاں تک قابل قبول ہے اور کہاں تک نہیں، یا اس رپورٹ سے جو معنی اخذ ہوتے ہیں وہ نظام شریعت میں کہاں تک نصب ( fit) ہوسکتے ہیں اور کہاں تک غیر متناسب ( unfit)ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں۔ جس طرح عدالت میں شہادتیں اور جج کا فیصلہ دونوں کی الگ حیثیت ہے، یعنی نہ مطلقاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جج کا فیصلہ شہادتوں پر بہرحال مقدم اور نہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ شہادتیں ضرور جج کے فیصلے پر مقدم ہوتی ہیں، اسی طرح محدث کی شہادت اور فقیہ کی اجتہادی تحقیق دونوں میں سے کسی کو بھی مطلقاً دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
ج۔ تفقہ مجتہد میں بھی خطا کا امکان ہے اور اسناد حدیث میں بھی۔ پس میرے نزدیک لازم ہے کہ ایک ذی علم آدمی مجتہدین کے اجتہاد اور احادیث کی روایات دونوں میں نظر کرکے حکم شرعی کی تحقیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حکم شرعی کی خود تحقیق نہیں کرسکتے تو ان کے لیے یہ بھی صحیح ہے کہ کسی عالم کے اوپر اعتماد کریں اور یہ بھی صحیح ہے کہ جو مستند حدیث مل جائے اس پر عمل کریں۔
د۔ ایک آدمی بیک وقت محدث اور فقیہ ہوسکتا ہے اور ایسا شخص نرے محدث یا نرے فقیہ کے مقابلے میں اصولاً قابل ترجیح ہے۔ لیکن میرا جواب صرف اصولی حیثیت سے ہے۔ کسی شخص خاص پر اس کا انطباق کرنے میں لازماً یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا تفقہ میں اس کا وہی مرتبہ ہے جو حفظ حدیث میں ہے۔
ر۔ اس وقت میرے پیش نظر مطلوبہ نظیر نہیں ہے، اور ویسے بھی نظیریں پیش کرنے سے بحث کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔
س۔ ائمہ مجتہدین نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں۔ لیکن میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات صحیح الاسناد حدیث متن کے اعتبار سے کمزور پہلو رکھتی ہے اور کتاب و سنت سے جو دوسری معلومات ہم کو حاصل ہیں ان کے ساتھ اس کا متن مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے حالات میں ناگزیر ہو جاتا ہے کہ یا اس حدیث کی تاویل کی جائے اور یا اسے رد کیا جائے۔
ص۔ درایت سے مراد فہم دین ہے جس کو قرآن مجید میں ’حکمت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ حکمت شریعت کی صحیح پیروی کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو درجہ ’’حذاقت‘‘ کا فن طب میں ہے۔ جن لوگوں نے اس میں سے کم حصہ پایا ہو یا جنھیں اس کی قدر و قیمت کا احساس ہی نہ ہو ان کے لیے تو یہی مناسب ہے کہ جیسا لکھا پائیں ویسا ہی عمل کریں۔ لیکن جنھیں اس میں سے کچھ حصہ ملا ہو وہ اگر اس بصیرت سے جو انھیں اللہ کے فضل سے کتاب و سنت میں حاصل ہوئی ہو، کام نہ لیں تو میرے نزدیک گنہگار ہوں گے۔
میرے نزدیک کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے میں آپ کو حکمت اور فقہ اور فہم دین کا کوئی ایسا معیار بتا سکوں جس پر آپ ناپ تول کر دیکھ لیں کہ کسی نے ان میں سے حصہ پایا ہے یا نہیں اور پایا ہے تو کتنا پایا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے طبیب کی حذاقت کا جوہری کی جوہر شناسی کا اور کسی صاحب فن کی فنی مہارت کا کوئی نپا تلا معیار نہیں قائم کیا جاسکتا۔ مگر اس چیز کے حدود معین نہ کیے جاسکنے کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ یہ چیز سرے سے لاشے ہے یا شریعت میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ط۔ اس سوال کا جواب اوپر کے جوابات میں ضم ہے۔ صرف اتنا اور کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ درایت کے استعمال میں خطا کا امکان ہے۔ لیکن ایسا ہی امکان کسی حدیث کو صحیح اور کسی کو ضعیف اور کسی کو موضوع قرار دینے میں بھی ہے۔ اگر کوئی مسلمان درایت کے استعمال میں غلطی کرکے مجرم ہو جاتا ہے تو وہ احادیث کے مرتبے کا تعین کرنے میں بھی غلطی کرکے مجرم ہوگا۔ لیکن شریعت انسان کی استعداد اور اس کے ممکنات کی حد تک ہی اس پر بار ڈالتی ہے اور اسی حد تک اسے مسئول قرار دیتی ہے۔
ایک دوسرے اہلحدیث دوست کا عنایت نامہ:
’’فقہی جزئیات کی تعمیل میں کتاب و سنت کے ماتحت مختلف ہونا الگ معاملہ ہے اور اسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اصولی طور پر روایت نبوی اور درایت مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابل برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکار حدیث کا مترادف ہوسکتا ہے۔ خود اکابر حنفیہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں۔ نیز امام ابو حنیفہؒ نے بھی اس قسم کے عقیدہ و خیال سے تبرّیٰ اور بیزاری ظاہر کی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حجۃ اللہ البالغہ اور شامی۔
جواب: آپ کا یہ فقرہ کہ ’’اصولی طور پر روایت نبوی اور درایت مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا‘‘ یقیناً میرے مسلک کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اور پھر آپ کا یہ ارشاد کہ ’’بعض حالات میں یہ معاملہ انکار حدیث کا مترادف ہوسکتا ہے‘‘ بے انصافی کی حد تک جا پہنچتا ہے۔ آپ خود ہی انصاف سے غور فرمائیں کہ اسی کتاب میں حدیث کے متعلق میں نے جو مضامین لکھے ہیں اور دوسری کتابوں اور مضامین میں جس طرح میں حدیث سے استدلال و احتجاج کرتا رہا ہوں، کیا ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد میرے متعلق یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے کہ میرا ذرّہ برابر بھی کوئی میلان منکرین ِ حدیث کے مسلک کی طرف ہے یا ہوسکتا ہے؟ پھر اگر آپ مجھے مومن و مسلم سمجھتے ہیں تو آخر کس طرح آپ نے یہ گمان کرلیا کہ میں کسی روایت کو فی الحقیقت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مان لینے کے بعد پھر اس پر کسی کے تفقہ یا اپنے اجتہاد یا کسی امام کے قول کو ترجیح دے سکتا ہوں؟ ترجیح تو درکنار اگر میں دونوں کو مساوی بھی سمجھوں، بلکہ اس کا خیال بھی کروں تو مومن کیسے رہ جائوں گا؟
دراصل آپ لوگ جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اجتہاد و تفقہ کو حدیث رسول پر ترجیح دیتے ہیں یا دونوں کو ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ نہیں ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، اس کی نسبت کا صحیح و معتبر ہونا بجائے خود زیر بحث ہوتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیث رسول مان لینا ضروری ہے جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ ہم سند کی صحت کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک اسناد کی صحت حدیث کی صحت معلوم کرنے کا ایک ہی ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان ذرائع میں سے ایک ہے جن سے کسی روایت کے حدیث رسول ہونے کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم متن پر غور کرنا، قرآن و حدیث کے مجموعی علم سے دین کا جو فہم ہمیں حاصل ہوا ہے، اس کا لحاظ کرنا، اور حدیث کی وہ مخصوص روایت جس معاملے سے متعلق ہے اس معاملے میں قوی تر ذرائع سے جو سنت ثابۃ میں معلوم ہو اس پر نظر ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ علاوہ بریں اور بھی متعدد پہلو ہیں جن کا لحاظ کیے بغیر ہم کسی حدیث کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دینا درست نہیں سمجھتے۔ پس ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ حدیث رسول اور اجتہاد مجتہد میں مساوات ہے یا نہیں بلکہ اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ روایات کے رد و قبول اور ان سے احکام کے استنباط میں ایک محدث کی رائے بلحاظ سند اور ایک مجتہد کی رائے بلحاظ درایت کا مرتبہ مساوی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ دونوں میں سے کس کی رائے زیادہ وزنی ہے؟ اس باب میں اگر کوئی شخص دونوں کو ہم پلہ قرار دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔ لیکن آپ لوگ اس کو گنہگار بنانے کے لیے اس پر خواہ مخواہ یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ وہ حدیث کو حدیث رسول مان لینے کے بعد پھر کسی مجتہد کی رائے کو اس کا ہم پلہ یا اس پر قابل ترجیح قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اس چیز کا تصور بھی کسی مومن کے قلب میں جگہ نہیں پاسکتا۔
محدثین جن بنیادوں پر احادیث کے صحیح یا غلط یا ضعیف وغیرہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کے اندر کمزوری کے مختلف پہلو میں بیان کر چکا ہوں۔ آپ براہ کرم مجھے بتائیے کہ فی الواقع کمزوری کے وہ پہلو فن حدیث میں موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو پھر آخر آپ حضرات ہم سے محدثین کی آراء پر ایمان لے آنے کا مطالبہ کیوں اس شد و مد سے کرتے ہیں؟ محدثین کو بالکل ناقابلِ اعتبار تو ہم نے کہا نہیں، نہ کبھی ہم اس کا خیال بھی دل میں لاسکتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس حدیث کی تحقیق میں سب سے پہلے ہم یہی دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے اس کا کیا حال ہے، اور اس معاملے میں جس پائے کے محدث نے اس کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہو اس کے مرتبے کے لحاظ سے ہم اس کی رائے کو پوری پوری وقعت دیتے ہیں۔ لیکن فن حدیث کی ان کمزوریوں کی بنا پر جن کا ذکر کیا ہے ہم اس امر کا التزام نہیں کرسکتے کہ محض علم روایت کی بہم پہنچائی ہوئی معلومات ہی پر پورا پورا اعتماد کرلیں اور ہر اس حدیث کو ضرور ہی حدیث ِ رسول تسلیم کر لیں جسے اس علم کی رُو سے صحیح قرار دیا گیا ہو۔ آپ ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں جس طرح ہم آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن اس اختلاف رائے کا نتیجہ یہ تو نہ ہونا چاہیے کہ آپ ہم پر اس جرم کا الزام لگائیں جو فی الواقع ہم نے نہیں کیا ہے۔

شیئر کریں