نماز کے سلسلے میں ایک اور چیز جو ہر مسلمان کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر بستی میں روزانہ پانچ مرتبہ ان کے رب کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے:
لوگو‘ اللہ سب سے بڑا ہے۔
لوگو‘ اللہ کے سوا کوئی اطاعت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔
لوگو‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں (اللہ نے انہیں تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے‘ اس لیے زندگی کی راہ انہیں سے پوچھو اور انہی کے طریقے کی پیروی کرو)
لوگو‘ اللہ کی بندگی (نماز) کے لئے آئو۔
لوگو‘ (بھٹکتے نہ پھرو) فلاح اور نجات کی طرف آئو۔
لوگو‘ پھر سن لو کہ بڑائی اور بزرگی صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا اطاعت و بندگی کے لائق نہیں۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ یہ اعلان ان لوگوں کے سامنے کیا جاتا ہے جو خود اس ایمان کے دعوے دار ہیں کہ:
(1)اللہ ہی فی الواقع واحد الہ‘ رب‘ مالک اور حقیقی حاکم و فرماں روا ہے‘ سب بڑائی اور بزرگی اسی کے لیے ہے‘ ہماری اطاعت و بندگی کا حقدار وہی ہے اور مسلمان کے معنی کسی نسل‘ رنگ‘ زبان یا وطن سے تعلق کے نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور غلامی کی راہ اختیار کرنے کے ہیں۔
(2)محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور ہمارے ایسے واجب الاطاعت رہبر اور رہنما ہیں کہ ان کے کسی ایک حکم کو بھی عمداً جھٹلانے والے شخص کے لیے دائرہ اسلام کے اندر کوئی جگہ نہیں ہے۔
(3)نماز دین کا ستون اور مومن اور کافر میں فرق کرنے والی چیز ہے اور یہ کہ
(4)دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح صرف اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری کی راہ اختیار کرنے اور اس پر چلنے پر موقوف ہے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ مسلمانوں کا روزانہ پانچ مرتبہ مہینوں اور سالہا سال اس اعلان خداوندی (اذان) کو اس طرح بے پروائی سے سنتے رہنا گویا کہ ان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘ خدا کی طرف سے بلاوے کو سن کر ان کا ذرا ٹس سے مس نہ ہونا جو پانچ دس آدمی اذان سن کر نماز کے لیے آبھی گئے‘ ان کا بے سمجھے بوجھے نماز کی مخصوص عبارتیں دہرا کر چل دینا اور اقامت صلوٰۃ کی حقیقت اور اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی کوئی پرواہ نہ کرنا‘ بلکہ باصرار خدا سے بے نیازی اور نافرمانی کی راہ پر چلتے رہنا‘ خدا کے غصہ و غصب کو کس قدر بھڑکا دینے والی چیز ہے؟ اللہ کی طرف سے تو حجت تمام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی ہے۔ کیا ہمارے اس طرز عمل کے لیے خدا کے روبرو پیش کرنے کے لیے کوئی جواب موجود ہے؟ اس بات کو سوچئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے۔
اللہ سے بار بار عہد اور اقرار کو استوار کرکے اسے پس پشت ڈال دینے اور دن میں کئی کئی مرتبہ یاد دہانی کرائے جانے کے باوجود اپنے ’’حلف وفاداری‘‘ کو بھول جانے والے لوگوں کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ عنقریب ایک دن ان کے کانوں میں یہ صدا گونجنے والی ہے:
الیوم ننسکم کما نسیتم لقاء یومکم ھذا وما وکم النار ومالکم من نصرین۔ ذالکم بانکم اتخذتم ایت اللہ ھزواً و غرتکم الحیوۃ الدنیا فالیوم لا یخرجون منھا ولا ھم یستعتبون۔ (جاثیہ: ۳۴۔۳۵)
’’آج ہم تمہیں اسی طرح بھول جائیں گے جس طرح تم نے ہماری آج کے دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا۔ اب تمہارا ٹھکانا آگ ہے اور کوئی نہیں جو تمہیں اس سے بچا سکے‘ یہ اس لیے کہ دنیا کی زندگی کے غرے میں تم نے اللہ کے احکام اور اس کی وعیدوں کو مذاق بنا رکھا تھا۔ اب نہ تو انہیں اس سے نکالا جائے گا اور نہ ان کا کوئی عذر قبول کیا جائے گا‘‘