پھر اِسلام کے اسی تصوّرِ کائنات و انسان میں وہ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانون اخلاق کی پُشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی بازپُرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اِسلام ایک ایسی طاقت ور رائے عام بھی تیار کرنا چاہتا ہے۔ جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور گروہوں کو اصولِ اخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو۔ اورایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اقتدار اخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دبائو پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دبائو پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔ اخلاقی احکام دینے سے پہلے اِسلام آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہر وقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دُنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگر اُس سے نہیں چھپ سکتا۔ دُنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے مگر اُسے نہیں دے سکتا۔ دُنیا بھر سے بھاگ سکتا ہے مگر اُس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ دُنیا محض تیرے ظاہر کو دیکھتی ہے۔ مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کودیکھ لیتا ہے۔ دُنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تُو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے‘ جہاں وکالت، رشوت، سفارش، جھوٹی شہادت، دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اِسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اسے حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اِسلام کے قانونِ اخلاق کی پشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عام اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نور علی نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیںہو۔
اِسلام کا یہ تصوّرِ کائنات انسان کو محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اخلاق کے مطابق عمل کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں۔ انسان کا اس بات پر راضی ہو جانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصدِ زندگی ٹھہرائے، یہ اس بات کے لیے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکامِ الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کے لیے ابدی زندگی میں ایک شان دار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دُنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات، نقصانات اور تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑے اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنا پڑے گی، چاہے دُنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ اُمید اور یہ خوف اگر کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوت محرکہ موجود ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی اسے نیکی پر اُبھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دُنیا میں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہو اور ان مواقع پر بھی بدی سے دُور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پُر لطف اور نفع بخش ہو۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِسلام اپنا تصوّرِ کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا ماخذ علمِ اخلاق، اپنی قوتِ نافذہ اور اپنی قوت محرکہ الگ رکھتا ہے اور انھی چیزوں کے ذریعہ سے معروف اخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بِنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اِسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اخلاقی نظام رکھتا ہے۔
اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں۔ مگر ان میں تین سب سے نمایاں ہیں جنھیں اس کا خاص عطیہ کہا جا سکتا ہے۔
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اخلاق کے لیے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقا کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک ماخذِ علم مقرر کر کے اخلاق کو وہ پائداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلوّن اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ خوفِ خدا کے ذریعہ سے اخلاق کو وہ قوت نافذہ دیتا ہے جو خارجی دبائو کے بغیر انسان کے اندر خود بخود قانونِ اخلاق پر عمل کرنے کی رغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اُپَج سے کام لے کر کچھ نرالے اخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انھی اخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی ،ملکی سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت پولیس لائن، چھائونی، میدانِ جنگ، صلح کانفرس، غرض زندگی کا کوئی پہلو، اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے ہر جگہ، ہر شعبۂ زندگی میں وہ اخلاق کو حکم ران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملات زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اخلاق کے ہاتھوں میں ہوں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت سے ایک ایسے نظامِ زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آئو انھیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن بُرائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے بُرا سمجھتی چلی آئی ہے آئو انھیں دبائیں اور مٹائیں۔ اس دعوت پر جنھوں نے لبیک کہا انھی کو جمع کر کے اس نے ایک اُمّت بنائی جس کا نام ’’مُسلم‘‘ تھا۔ اور ان کے ایک اُمّت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کو جاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کے لیے منظم سعی کرے۔ اب اگر اسی اُمّت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے، خود اس اُمّت کے لیے بھی اور دُنیا کے لیے بھی۔
٭…٭…٭…٭…٭