انھوں نے اپنے اخلاقی مفاسد اور معاشرتی طور طریقے ہم پر مسلط کیے اور اس طرح مسلّط کیے کہ ان کے ہاں تقرب کا مقام اور تقدم کا شرف ان لوگوں کے لیے مخصوص رہا جواخلاق میں ان سے قریب تر اور معاشرت میں ان کے ہم رنگ ہوں۔ یہی چیز اثر ورسوخ اور معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کی ضامن تھی۔ اس لیے رفتہ رفتہ ہمارے اونچے طبقے، اور ان کے پیچھے متوسط طبقے اس رنگ میں رنگتے چلے گئے اور آخر میں تصاویر، سینما ، ریڈیو، اور سربرآوردہ لوگوں کی زندہ مثالوں نے یہ وبا عوام تک بھی پھیلانی شروع کر دی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک صدی کے اندر ہم پھسلتے پھسلتے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے ہاں مخلوط تعلیم کا رواج گوارا کیا جا رہا ہے۔ اچھے اچھے گھرانوں کی خواتین رقص اور مے نوشی میں مبتلا ہو رہی ہیں، شریف زادیاں ایکٹرسیں بن کر وہ بے حیائی دکھا رہی ہیں جس کے لیے کبھی ہمارے ہاں کی طوائف بھی تیار نہ تھی اور ہزاروں کے مجمعے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پریڈیں کرتے دیکھتے ہیں اور ان کو دادِ تحسین دیتے ہیں۔ اب وہ منزل کچھ دور نہیں ہے جہاں پہنچ کر اہل مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی یہ سوال اٹھے گا کہ کنواری ماں اور حرامی بچے میں آخر عیب کیا ہے؟ کیوں نہ معاشرے میں انھیں بھی مادرِ منکوحہ اور بچۂ حلال کی طرح عزت کا مقام دیا جائے؟ مغرب بھی اس مقام پر ایک دن میں نہ پہنچا تھا۔ ان ہی منازل سے گزرتا ہوا پہنچا تھا جن سے اب ہم گزر رہے ہیں۔