Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اخلاقی حالت

یہ تھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا اور آج اس آزادی کی صبح آغاز کے میں بھی یہی حالت اپنی پوری قباحتوں کے ساتھ ہماری دامن گیر ہے۔
اب اخلاقی حیثیت سے دیکھیے توآپ کو معلوم ہو گا کہ عام طور پر اُس زمانے میں ہمارا طبقۂ متوسط، جوہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، مسلسل اخلاقی انحطاط کی بدولت بالکل بھاڑے کاٹٹو(Mercenary) بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اصول یہ تھا کہ جو بھی آ جائے، اجرت پر اس کی خدمات حاصل کر لے اور پھر جس مقصد کے لیے چاہے اس سے کام لے لے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی ہمارے ہاں کرائے کے سپاہی بننے کے لیے تیار تھے جنھیں ہر ایک نوکر رکھ کر جس کے خلاف چاہتا لڑوا سکتا تھا اور ہزاروں، لاکھوں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے ہاتھ اور دماغ کی طاقتوں کو کم یا زیادہ اجرت پر لے کر ہر فاتح اپنا نظم ونسق چلوا سکتا تھا؟ بلکہ اپنی سیاسی چالبازیوں تک میں استعمال کر سکتا تھا۔ ہماری اس اخلاقی کم زوری سے ہمارے ہر دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے۔ خواہ وہ مرہٹے ہوں، فرانسیسی ہوں یا ولندیزی اور آخر کار انگریز نے آ کر خود ہمارے ہی سپاہیوں کی تلوار سے ہم کو فتح کیا اور ہمارے ہی ہاتھوں اور دماغوں کی مدد سے ہم پر حکومت کی، ہماری اخلاقی حس اس درجہ کند ہو چکی تھی کہ اس روش کی قباحت سمجھنا تو درکنار، ہمیں الٹا اس پر فخر تھا۔ چنانچہ ہمارا شاعر اسے اپنے خاندانی مفاخر میں شمار کرتا ہے کہ ؎
سو پُشت سے ہے پیشۂ آبائ سپاہ گری
حالانکہ کسی شخص کا پیشہ ور سپاہی ہونا حقیقت میں اس کے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے باعثِ ننگ ہے نہ کہ باعثِ عزت، وہ آدمی ہی کیا ہوا جو نہ حق اور باطل کی تمیز رکھتا ہو نہ اپنے اور پرائے کا امتیاز۔ جو بھی اس کے پیٹ کو روٹی اور تن کو کپڑا دے دے وہ اس کے لیے شکار مارنے پر آمادہ ہو جائے اور کچھ نہ دیکھے کہ میں کس کے لیے کس پر جھپٹ رہا ہوں۔ یہ اخلاقی حالت جن لوگوں کی تھی ان میں کسی دیانت وامانت اور کسی مستقل وفاداری کا پایا جانا مستبعد تھا اور ہونا چاہیے۔ جب وہ اپنی قوم کے دشمنوں کے ہاتھ خود اپنے آپ کو بیچ سکتے تھے تو ان کے اندر کسی پاکیزہ اور طاقت ور ضمیر کے موجود ہونے کی آخر وجہ ہی کیا ہو سکتی تھی؟ کیوں وہ رشوت اور غبن کا نام ’’دستِ غیب‘‘ اور ’’خدا کا فضل‘‘ نہ رکھتے؟ کیوں وہ ابن الوقت اور چڑھتے سورج کے پرستار نہ ہوتے؟ اور کیوں ان میں یہ وصف پیدا نہ ہوتا کہ جس کے ہاتھ سے انھیں تنخواہ ملتی ہو اس کے لیے اپنے ایمان وضمیر کے خلاف سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائیں؟…اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملازمت پیشہ طبقے کی اکثریت آج جن اوصاف کا اظہار کر رہی ہے وہ کوئی اتفاقی کم زوری نہیں جو اچانک ان میں پیدا ہو گئی ہو، بلکہ اس کی جڑیں ہماری روایات میں گہری جمی ہوئی ہیں البتہ افسوس اگر ہے تو اس بات کا ہے کہ کل ان سے ہمارے دشمن ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور آج ان کو ہماری قوم کے وہ راہ نما استعمال کر رہے ہیں جنھیں درحقیقت قوم کے امراض کا معالج ہونا چاہیے تھا نہ کہ ان امراض سے فائدہ اٹھانے والا!
ہمارے طبقۂ متوسط کی ان کم زوریوں میں ہمارے علما بھی شریک تھے۔ اگرچہ ایک قلیل تعداد جس طرح طبقۂ متوسط میں بلند اخلاق اور مضبوط سیرت لوگوں کی موجود تھی، اسی طرح علما میں بھی کچھ ایسی مقدس شخصیتیں موجود رہیں، جنھوں نے اپنے فرض کو ٹھیک ٹھیک پہچانا اور اپنی جانیں لڑا کر اسے ادا کیا اور دنیا کی کوئی دولت ان کو نہ خرید سکی۔ مگر عام طور پر جو اخلاقی حالت طبقۂ متوسط کی تھی وہی علما کی بھی تھی۔ ان میں بیشتر وظیفہ خوار تھے۔ کسی نہ کسی بادشاہ یا امیر یا درباری سے وابستہ ہو جانا، اس کے وظیفے کھا کر اس کے منشا کے مطابق دین اور دینی قوانین کی تعبیریں کرنا، اپنے ذاتی مفاد کو دین کے تقاضوں پر مقدم رکھنا، اپنے مخدوموں کی خاطر علمائے حق کو دبانے کے لیے مذہب کے ہتھیاراستعمال کرنا، بس یہی کچھ ان کا شعار رہا۔ یہ مچھر کو چھانتے اور اونٹ نگلتے رہے ہیں۔ بے اثر اور بے دولت لوگوں کے معاملے میں تو ان کی دینی حس اتنی تیز رہی ہے کہ مستحبات اور مکروہات اور چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک میں یہ ان کو معاف کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئے اور ان امور کی خاطر انھوں نے بڑے بڑے جھگڑے برپا کر دیے۔ مگر اہلِ دولت اور اربابِ اقتدار کے معاملے میں خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر، یہ ہمہ تن مصالحت بنے رہے اور جزئیات چھوڑ کر کلیات تک میں انھوں نے ان کے لیے رخصتیں نکالیں۔
رہے ہمارے امرا تو ان کے لیے دنیا میں صرف دو ہی چیزیں دل چسپی کا مرکز رہ گئی تھیں۔ ایک پیٹ، دوسرے شرمگاہ، ان کے سوا کسی دوسری چیز کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ ساری کوششیں اور ساری محنتیں بس ان ہی کی خدمت کے لیے وقف تھیں اور قوم کی دولت سے ان ہی پیشوں اور صنعتوں اور حرفتوں کو پروان چڑھایا جا رہا تھا، جوان دو چیزوں کی خدمت کریں۔ اس سے ہٹ کر اگر کسی امیر نے اپنی دولت وطاقت کو کسی بڑے مقصد کے لیے استعما ل کیا تو سارے امیروں نے مل کر اسے گرانے کی کوشش کی اور اپنی قوم کے دشمنوں سے اس کے خلاف ساز باز کرنے میں بھی تامل نہ کیا۔

شیئر کریں