یہ ہے وہ جواب جو اِسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصوّرِ کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کر دیتا ہے، جسے پہچاننا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے اور وہ ہے خدا کی رضا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر اِسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے۔ اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہو جاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پا جانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقا کے امکانات لا متناہی ہو سکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اسے ملوث نہیں کر سکتیں۔