دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسنِ عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی، ہمدردی، احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں۔ اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان، عبادات، تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے، اس کے ذوق کو بدلا جائے، اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس (moral sence) پیدا کی جائے۔ جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے۔ ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دبائو سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے۔ اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے، اس لیے وہ انسانی معاشرے کو طبقات میں تقسیم نہیں کرتا، اور فطری طور پر جو طبقات موجود ہیں ان کو طبقاتی نزاع (class struggle) کے بجائے ہمدردی اور تعاون کی راہ دکھاتا ہے۔ انسانی معاشرے کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک قسم کے طبقات وہ جو مصنوعی طور پر ایک ظالمانہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام ناروا طریقے سے پیدا کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی ان کو قائم رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ طبقات جو برہمنیت نے پیدا کیے، یا وہ جو جاگیرداری نظام (feudal system) نے پیدا کیے، یا وہ جو مغرب کے سرمایہ داری نظام (western captalist system) نے پیدا کیے۔ اسلام نہ خود ایسے طبقات کو پیدا کرتا ہے اور نہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے، بلکہ اپنی اصلاحی اور قانونی تدابیر سے ان کو ختم کر دیتا ہے۔ دوسری قسم کے طبقات وہ ہیں جو انسانی قابلیتوں کے فرق اور انسانی حالات کے فرق کی بنا پر فطرتاً پیدا ہوتے ہیں اور فطری طریقے پر ہی بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام ایسے طبقات کو نہ زبردستی مٹاتا ہے، نہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل کرتا ہے ، اور نہ انہیں آپس میں لڑاتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام کے ذریعے سے ان کے درمیان منصفانہ تعاون پیدا کرتا ہے، ان کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے، اور تمام لوگوں کے لیے مواقع کی یکسانی (equality of opportunities) بہم پہنچا کر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں یہ طبقات فطری طریقے سے تحلیل اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔