ہر شخص بلا کسی غور و فکر کے محض وجدانی طور پر یہ تصور رکھنا ہے کہ انسان اپنی ارادی حرکات و سکنات میں آزاد ہے اور جو فعل وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اس کے لیے وہ ذمہ دار و جواب دہ ہے، اچھے افعال و کردار کے لیے مدح و تحسین اور جزا و انعام کا مستحق ہے اور برے افعال کے لیے ملامت اور سزا کا مستوجب۔ اس سادہ اور وجدانی تصور میں کہیں اس خیال کا شائبہ نہیں ہوتا کہ آدمی اپنے سوچے سمجھے افعال میں کسی خارجی یا باطنی قوت سے مجبور بھی ہوتا ہے جہاں فی الواقع مقہوری و مجبوری کے آثار نظر آتے ہیں وہاں ارادہ و اختیار کے بجائے اضطرار و بے اختیاری کا حکم لگایا جاتا ہے۔ انسان کی ذمہ داری و جوابدہی ختم ہو جاتی ہے، مدح و ذم اور سزا و جزا کا استحقاق باقی نہیں رہتا اور ایسے حالات کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ ان پر انسان کے نیک یا بد اور اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر کوئی شخص کسی کو پتھر مارے یا گالی دے تو اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں آتا کہ اس شخص نے یہ فعل کسی اور طاقت کے جبر سے کیا ہے اور اسی لیے وہ اس کو ذمہ دار قرار دے کر جواب میں گالی یا پتھر سے اس کی تواضع کرتا ہے لیکن اگر وہی شخص دیوانہ ہو تو اس کی گالی یا پتھر کو کوئی بھی قصد و اختیار پر محمول نہیں کرتا بلکہ اُسے مجبور و مضطر قرار دے کر تمام افعال کی ذمہ داری سے بری سمجھتا ہے۔
یہی اضطراری اختیاری و ارادی و تسخیری اعمال کا فرق، جس کا تصور پہلے سے ہمارے ذہن میں موجود ہے، اس معیار کی بنیاد ہے جو ہم نے انسان کے نیک اور بد ہونے اور اس کے قابل جزا یا مستوجب سزا ہونے کے لیے قائم کیا ہے۔ ہم ایک بچے یا ایک پاگل کو اس کے برہنہ پھرنے پر کبھی ملامت نہیں کرتے مگر ایک عاقل و بالغ آدمی بحالت عریانی باہر نکل آئے تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کسی شخص کا منہ قدرتی طورپر خراب ہو تو کوئی اسے دیکھ کر برا نہیں مانتا، لیکن اچھے خاصے منہ والا ہمیں دیکھ کر منہ چڑائے تو ہمیں ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ بخار کا مریض حالت بحران میں لایعنی باتیں بکتا ہے اور ہم اُسے کچھ الزام نہیں دیتے، مگر عالم ہوش میں کوئی شخص ایسی باتیں کرے تو اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے۔ اندھا آدمی اپنی چیز کے بجائے کسی دوسرے کی چیز اٹھا لے تو ہم اس پر چوری کا الزام نہیں لگاتے۔ مگر آنکھوں والا یہی حرکت کرے تو اسے فوراً پکڑ لیتے ہیں۔ کوئی شخص کسی دبائو کے تحت نیکی کرے تو اس کی تعریف نہیں کی جاتی مگر بغیر کسی دبائو کے نیک عمل کرنے والے کی سب تعریف کرتے ہیں۔ بچہ اگر گناہ نہیں کرتا تو اس کو نیک نہیں کہا جاتا، البتہ جوان آدمی کے عمل صالح پر نیکی کا حکم لگایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے ہم پہلے سے یہ سمجھتے ہیں کہ انسان بعض افعال میں مختار ہے اور بعض میں مجبور اور پھر وجدانی طور پر ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ذمہ داری و جواب دہی اور اس کی بنیاد پر مدح و ذم اور سزا و جزا کا استحقاق کلیتاً اختیاری افعال پر مترتب ہوتا ہے، نہ کہ اضطراری افعال پر۔