یہ تو ہے معاملہ کتابتِ حدیث کا، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، اہلِ عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے بجائے حفظ وروایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھے، اور یہی عادت ان کی اِسلام کے ابتدائی دور میں بھی برسوں تک رہی۔ ان حالات میں قرآن کو محفوظ کرنے کے لیے تو کتابت ضروری سمجھی گئی، کیوں کہ اس کا لفظ لفظ آیات اور سورتوں کی ٹھیک اسی ترتیب کے ساتھ جو اللّٰہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی تھی، محفوظ کرنا مطلوب تھا لیکن حدیث کے معاملے میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، کیوں کہ اس میں مخصوص الفاظ اور ان کی خاص ترتیب کے وحی ہونے کا نہ دعوٰی تھا نہ تصور، بلکہ مقصود صرف ان احکام اور تعلیمات وہدایات کو یاد رکھنا اور پہنچانا تھا جو صحابہ کو حضورﷺ سے ملی تھیں۔ اس باب میں زبانی نقل وروایت کی محض کھلی اجازت ہی نہ تھی، بلکہ بکثرت احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو بار بار اور بکثرت اس کی تاکید فرمائی تھی۔ مثال کے طور پر چند احادیث ملاحظہ ہوں:
۱۔ زید بن ثابت، عبداللّٰہ بن مسعود، جبیر بن مطعم اور ابوالدردا رضی اللّٰہ عنہم حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہَ حَتّٰی یُبَلِّغَہ‘ غَیْرَہ‘ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ اِلٰی مَنْ ھُوْ اَفْقَہُ مِنْہُ وَرُبَّ حَامِلٍ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ(ابودائود، ترمذی، احمد، ابن ماجہ، دارمی) ’’اللّٰہ اس شخص کو خوش وخرم رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اور دوسروں تک پہنچائے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سمجھ کی بات کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے، جو اس سے زیادہ فقیہ ہو، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص خود فقیہ نہیں ہوتا مگر فقہ پہنچانے والا بن جاتا ہے۔
۲۔ ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ فَاِنَّ الشَّاھِدَ عَسٰی اَنْ یُّبَلِّغَ مَنْ ھُوَ اَوْعٰی لَہ‘ مِنْہُ(بخاری، مسلم) ’’جو حاضر ہے وہ ان لوگوں تک پہنچا دے جو حاضر نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی تک پہنچا دے جو اس سے زیادہ سمائی(یاد) رکھتا ہو۔
۳۔ ابوشریح کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دوسرے دن حضورﷺ نے خطبہ دیا جسے میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے اور خوب یاد رکھا ہے اور وہ موقع اب تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ خطبہ ختم کرکے حضورﷺ نے فرمایا وَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (بخاری) ’’جوحاضر ہیں وہ اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘
۴۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی تقریر ختم کرکے آپ نے قریب قریب وہی بات فرمائی تھی جو اوپر والی دونوں حدیثوں میں منقول ہوئی ہے۔‘‘ (بخاری)
۵۔ بنی عبدالقیس کا وفد جب بحرین سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے چلتے وقت عرض کیا کہ ہم بہت دور دراز کے باشندے ہیں، ہمارے اورآپﷺ کے درمیان کفار حائل ہیں، ہم صرف حرام مہینوں میں ہی حاضر خدمت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آپﷺ ہمیں کچھ ایسی ہدایات دیں جو ہم واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو بتائیں اور جنت کے مستحق ہوں۔ حضورﷺ نے جواب میں ان کو دین کے چند احکام بتائے اور فرمایا: اِحْفَظُوْہُ وَاَخْبِرُوْہُ مَنْ وَّرَائَ کُمْ(بخاری و مسلم) ’’ان باتوں کو یاد کر لو اور وہاں کے لوگوں کو بتا دو۔‘‘
کیا یہ ہدایات اور بار بار کی تاکیدیں یہی ظاہر کرتی ہیں کہ حضورﷺ روایت حدیث کی حوصلہ افزائی نہ کرنا چاہتے تھے، یا یہ کہ آپ اپنے احکام کو وقتی احکام سمجھتے تھے اور یہ نہ چاہتے تھے کہ لوگوں میں وہ پھیلیں اور عام حالات پر ان کا انطباق کیا جانے لگے؟