Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

احادیث سے قربانی کا ثبوت

اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اسے سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ابودائود، ترمذی)
حضرت برا بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اوّل مانبد أبِہٖ فی یومنا ھٰذا ان نصلی ثم نرجع فننحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا۔ ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا الاضحی یوم یضحی الناس ’’الاضحی وہ دن ہے جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصلا نا۔ ’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مَا مَاعَمِل ابنُ اٰدم یوم النحر عملاً احبَّ الٰی اللّٰہ من اِھراق الدّم۔ ’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضورؐ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔(مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدُالاضحی کی نماز پڑھی، پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپ نے اسے ذبح فرمایا۔ (مسند احمد، ترمذی، ابودائود)
امام زین العابدینؒ حضرت ابورافع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ عیدالاضحی کے لیے دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام امت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی (بخاری، مسلم) اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے (ابودائود، ابن ماجہ بیہقی)
برا بن عازب، جندب بن سفیان اَلبُجَلِیْاور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت مسلمین پر عمل کیا۔‘‘ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
حضرت جابر عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں قربانی کے دن نماز پڑھائی، اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ ’’جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اُس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے۔‘‘ (مسلم، مسند احمد)
یہ روایات، اوربکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں، اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازمًا صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اسے سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ابودائود، ترمذی)
حضرت برا بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اوّل مانبد أبِہٖ فی یومنا ھٰذا ان نصلی ثم نرجع فننحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا۔ ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا الاضحی یوم یضحی الناس ’’الاضحی وہ دن ہے جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصلا نا۔ ’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مَا مَاعَمِل ابنُ اٰدم یوم النحر عملاً احبَّ الٰی اللّٰہ من اِھراق الدّم۔ ’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضورؐ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔(مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدُالاضحی کی نماز پڑھی، پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپ نے اسے ذبح فرمایا۔ (مسند احمد، ترمذی، ابودائود)
امام زین العابدینؒ حضرت ابورافع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ عیدالاضحی کے لیے دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام امت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی (بخاری، مسلم) اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے (ابودائود، ابن ماجہ بیہقی)
برا بن عازب، جندب بن سفیان اَلبُجَلِیْاور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت مسلمین پر عمل کیا۔‘‘ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
حضرت جابر عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں قربانی کے دن نماز پڑھائی، اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ ’’جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اُس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے۔‘‘ (مسلم، مسند احمد)
یہ روایات، اوربکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں، اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازمًا صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔

شیئر کریں