Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ

پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’’ضیاع‘‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف نہ کرتی ہو۔ ان چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے انھیں ناپے اور روپے کے وزن سے انھیں تولے۔ آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہر سال جو بے شمار دولت ساری دنیائے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے یہ روپے کا ضیاع ہے۔ وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلا تامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوں میں تقسیم شدہ مسیحی ملت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ہے تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہندوئوں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندر وحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہو کر ایک قوم نہ بن سکیں۔ یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ہے جو دنیا کی مختلف قومیں وقتًا فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ہے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتا ہے۔ مگر کوئی قوم بھی یہ حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ بس ہسپتال، مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں۔ حالانکہ دنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ہے جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ہے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہر طرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ہے جتنی ہماری عیدیں ہیں۔ اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ہے جیسا ہمارے پاس ہے۔ اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کر چکے ہیں؟
اور یہ قربانی پر روپیہ ’’ضائع‘‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ہے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ہے جو ان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ہے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کر دیجیے، کیوں کہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہو رہا ہے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ہے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ہے اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔
اب کچھ لوگوں نے یہ محسوس کرکے کہ یہ ضائع ہونے کی بات چلتی نظر نہیں آتی، یہ افسانہ تراشا ہے کہ بقر عید میں بہت سا گوشت سڑ کر پھِک جاتا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اس ملک میں ایک مدت سے جی رہے ہیں، ہمیں تو کبھی سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ وہ بتائیں انھیں کہاں ان کا دیدار میسرہوا ہے۔
حال میں ایک اور آواز اٹھی ہے کہ ملک میں روز بروز جانوروں کی کمی ہوتی جارہی ہے اور اسی وجہ سے دودھ اور گھی کی فراہمی بھی کم ہو رہی ہے۔ حکومت نے اسی لیے ہفتہ میں ایک کی بجائے دو دن گوشت کا ناغہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مگر اس سے بھی کام نہ چلا۔ اب شاید اسے بڑھا کر جلدی ہی تین دن ناغہ کرنا پڑے۔ اس حالت میں بقر عید کی قربانی پر پابندی لگانا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ اگر اسی طرح ہزارہا جانور اس موقع پر کٹتے رہے تو جانوروں کا، اور اس کے ساتھ دودھ گھی کا بھی قحط رونما ہو جائے گا۔
جہاں تک جانوروں کی کمی کا تعلق ہے، اسے بڑھا کر قحط کی حد تک نوبت پہنچا دینے کا غالبًا اس سے زیادہ کار گر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان کی کھپت روز بروز کم کی جاتی رہے۔ کیوں کہ جانور پالنے والے بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی روز بروز گلہ بانی کے پیشے سے دست کش ہوتے چلے جائیں گے۔ جب ان کے مال کی مانگ اس قدر کم ہو جائے کہ سال بھر میں ۱۵۶ دن تک ویسے ہی اس کی فروخت بند رہے، اور سال کے وہ تین دن بھی، جن کی اُمید میں وہ ہزارہا جانور پورے سال پالتے رہتے تھے، ان کے لیے کساد بازاری کی نذر ہو جائیں، تو ظاہر ہے کہ ان کے لیے اس کام میں کوئی کشش باقی نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنی روزی کسی اور کام میں تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے اور جانور پالنا کم کرتے چلے جائیں گے۔ پھر جب جانوروں کی فراہمی میں مزید کمی واقع ہوگی اور ہمارے ضرورت سے زیادہ عقل مند مدبرین ہفتہ میں مزید چند روز گوشت بند کرکے اور بقر عید کی قربانی بالکل ممنوع کرکے اس کا مداوا فرماتے رہیں گے تو ایک روز آپ سے آپ یہ ملک اہنسا کا گہوارہ اور جَین مت کی جنت بن کر رہے گا۔ نہ معلوم ان حضرات کو کس حکیم نے یہ مشورہ دیا ہے کہ جانوروں کی کمی کا علاج ان کی افزائش نسل کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے اور گلہ بانی کی ہمت افزائی کرنے کی بجائے بازار میں اس جنس کی مانگ کم کرتے چلے جانا ہے۔
رہی دودھ اور گھی کی کمی، تو اس کا رشتہ جانوروں کے ذبیحے سے لے جا کر جوڑنا صرف ان لوگوں کاکام ہوسکتا ہے جو اس ملک میں باہر سے آکر حکم رانی کرنے والوں کی طرح رہتے ہیں۔ بالکل ایک غیر ملکی مبصر کی طرح انھوں نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر قیاس فرما لیا کہ ضرور دودھ دینے والے جانور ہی دھڑا دھڑ ذبح کیے جارہے ہوں گے، تب ہی تو ملک میں دودھ اور گھی کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ حالانکہ اگر وہ اس ملک میں چل پھر کر معلوم کرتے کہ یہاں دودھ دینے والے جانوروں کی قیمتیں کیا ہیں، اور گوشت کا نرخ کیا ہے، اور یہاں کے ایک جانور میں اوسطاً کتنا گوشت نکلتا ہے، تو انھیں خود معلوم ہو جاتا کہ صرف وہی قصاب دودھ دینے والا جانور کاٹ کر گوشت بیچ سکتا ہے جو کچھ کمانے کی بجائے اپنے گھر سے خریداروں کو کھلانے کی پاکیزہ نیت رکھتا ہو، اور صرف وہی شخص بقر عید میں دودھ دینے والا جانور خرید کر قربان کرسکتا ہے جس کی ماہوار آمدنی سیکڑوں سے متجاوز ہو کر ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہو۔

شیئر کریں