Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام

برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے زکوٰۃ کی حقیقت بیان کر چکا ہوں۔ اب میں آپ کے سامنے اس کے ایک دوسرے پہلو پر روشنی ڈالوں گا۔
اللہ کی شانِ کریمی
قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقات کے لیے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی:’’خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔‘‘بعض بعض مقامات پر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم راہِ خدا میں صَرف کرتے ہو یہ اللہ کے ذمے قرضۂ حسنہ ہے، گویا تم اللہ کو قرض دیتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمھارا قرض دار ہو جاتا ہے۔ بکثرت مقامات پر یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم دو گے اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے اور وہ صرف اتنا ہی تم کو واپس نہ کرے گا بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ دے گا۔ اس مضمون پر غور کیجیے۔ کیا زمین وآسمان کا مالک، نعوذ باللہ آپ کا محتاج ہے؟ کیا اس ذاتِ پاک کو آپ سے قرض لینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ پادشاہوں کا پادشاہ، وہ بے حد وحساب خزانوں کا مالک، اپنے لیے آپ سے کچھ مانگتا ہے؟ معاذ اللہ، معاذ اللہ۔ اُسی کی بخشش پر تو آپ پل رہے ہیں۔ اُسی کا دیا ہوا رزق تو آپ کھاتے ہیں۔ آپ میں سے ہر امیر اور غریب کے پاس جو کچھ ہے سب اُسی کا تو عطیہ ہے۔ آپ کے ایک فقیر سے لے کر ایک کروڑ پتی اور ارب پتی تک ہر شخص اس کے کرم کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کو کیا ضرورت کہ آپ سے قرض مانگے اور اپنی ذات کے لیے آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے؟
دراصل یہ بھی اس کی شانِ کریمی ہے کہ وہ آپ سے خود آپ ہی کے فائدے کے لیے، آپ ہی کی بھلائی کے لیے، آپ ہی کے کام میں خرچ کرنے کو فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ خرچ میری راہ میں ہے، مجھ پر قرض ہے، میرے ذمے اس کا بدلہ ہے اور میں تمھارا احسان مانتا ہوں۔ تم اپنی قوم کے محتاجوں اور مسکینوں کو دو۔ اس کا بدلہ وہ غریب کہاں سے دیں گے، ان کی طرف سے میں دوں گا۔ تم اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرو۔ اس کا احسان ان پر نہیں مجھ پر ہے، میں تمھارے اس احسان کو اتاروں گا۔ تم اپنے یتیموں، اپنی بیوائوں، اپنے معذوروں، اپنے مسافروں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جو کچھ دو اسے میرے حساب میں لکھ لو۔ تمھارا مطالبہ ان کے ذمے نہیں، میرے ذمے ہے اور میں اس کو ادا کر دوں گا۔ تم اپنے پریشان حال بھائیوں کو قرض دو، اوران سے سود نہ مانگو، ان کو تنگ نہ کرو، اگر وہ ادا کرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کو سول جیل نہ بھجوائو، ان کے کپڑے اور گھر کے برتن فروخت نہ کرائو، ان کے بال بچوں کو گھر سے بے گھر نہ کر دو۔ تمھارا قرض ان کے ذمے نہیں، میرے ذمے ہے۔ اگر وہ اصل ادا کر دیں گے تو ان کی طرف سے سود مَیں ادا کروں گا، اور اگر وہ اصل بھی ادا نہ کر سکیں گے تومیں اصل اور سود دونوں تمھیں دوں گا۔ اسی طرح اپنی جماعتی فلاح کے کاموں میں، اپنے ابنائے نوع کی بھلائی اور بہتری کے لیے جو کچھ تم خرچ کرو گے، اس کا فائدہ اگرچہ تمھی کو ملے گا، مگر اس کا احسان مجھ پر ہو گا۔ میں اس کی پائی پائی منافع سمیت تمھیں واپس دوں گا۔
یہ ہے اس کریموں کے کریم، اس پادشاہوں کے پادشاہ کی شان۔ تمھارے پاس جو کچھ ہے اسی کا بخشا ہوا ہے۔ تم کہیں اور سے نہیں لاتے، اسی کے خزانوں سے لیتے ہو، اور پھر جو کچھ دیتے ہو، اس کو نہیںدیتے، اپنے ہی رشتہ داروں، اپنے ہی بھائی بندوں، اپنی ہی قوم کے لوگوں کو دیتے ہو، یا اپنی اجتماعی فلاح پر صَرف کرتے ہو جس کا فائدہ آخر کار تم ہی کو پہنچتا ہے، مگر اس فیاضِ حقیقی کو دیکھو کہ جو کچھ تم اس سے لے لے کر اپنوں کو دیتے ہو، اسے وہ فرماتا ہے کہ تم نے مجھے دیا۔ میری راہ میں دیا، مجھے قرض دیا، میں اس کا اجر تمھیں دوں گا۔ اللہ اکبر! خداوندِ عالم ہی کو یہ شانِ کریمی زیب دیتی ہے۔ اُسی بے نیاز بادشاہ کا یہ مقام ہے کہ فیاضی اور جود و کرم کے اس بلند ترین کمال کا اظہار کرے۔ کوئی انسان اس بلند خیالی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اِنفاق کی تلقین کیوں؟
اچھا، اب اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور فیاضی پر ابھارنے کا یہ طریقہ کیوں اختیار فرمایا؟ اس سوال پرجتنا زیادہ آپ غور کریں گے اسی قدر زیادہ آپ پر اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی کا حال کھلے گا، اور آپ کا دل گواہی دیتا چلا جائے گا کہ ایسی بے نظیر تعلیم خدا کے سوا کسی اورکی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
انسان خود غرض واقع ہوا ہے
آپ جانتے ہیں کہ انسان کچھ اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے ظلوم وجہول واقع ہوا ہے۔ اس کی نظر تنگ ہے۔ یہ زیادہ دُورتک نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا دل چھوٹا ہے۔ زیادہ بڑے اور اونچے خیالات اس میں کم ہی سما سکتے ہیں۔ یہ خود غرض واقع ہوا ہے، اور اپنی غرض کا بھی کوئی وسیع تصور اس کے دماغ میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ جلد باز بھی ہے:
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیائ 21:37)
انسان جلد باز مخلوق ہے۔
یہ ہر چیز کا نتیجہ اور فائدہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے اور اُسی نتیجے کو نتیجہ اور اُسی فائدے کو فائدہ سمجھتا ہے جو جلدی سے اس کے سامنے آ جائے اور اس کو محسوس ہو جائے۔ دُور رس نتائج تک اس کی نگاہ نہیں پہنچتی، اور بڑے پیمانے پر جو فائدے حاصل ہوتے ہیں، جن فائدوں کا سلسلہ بہت دُور تک چلتا ہے، ان کا ادراک تو اسے مشکل ہی سے ہوتا ہے، بلکہ بسا اوقات ہوتا ہی نہیں۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے، اور اس کمزوری کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں یہ اپنے ذاتی فائدے کو دیکھتا ہے، اور فائدہ بھی وہ جو بہت چھوٹے پیمانے پر ہو، جلدی سے حاصل ہو جائے اور اس کو محسوس ہو جائے۔ یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں نے کمایا ہے، یا جو کچھ مجھے اپنے باپ دادا سے ملا ہے وہ میرا ہے، اس میں کسی کا حصہ نہیں۔ اس کو میری ضروریات پر، میری خواہشات پر، میری آسائش پر اور میری لذّتِ نفس ہی پر خرچ ہونا چاہیے، یا کسی ایسے کام میں خرچ ہونا چاہیے جس کا نفع جلدی سے محسوس صورت میں میرے پاس پلٹ آئے۔ میں روپیہ صرف کروں تو اس کے بدلے میں یا تو میرے پاس اس سے زیادہ روپیہ آنا چاہیے، یا میری آسایش میں مزید اضافہ ہونا چاہیے، یاکم از کم یہی ہو کہ میرا نام بڑھے، میری شہرت ہو، میری عزت بڑھے، مجھے کوئی خطاب ملے، اونچی کرسی ملے، لوگ میرے سامنے جھکیں، اور زبانوں پرمیرا چرچا ہو۔
اگر ان باتوں میں سے کچھ بھی مجھے حاصل نہیں ہوتا تو آخر مَیں کیوں اپنا مال اپنے ہاتھ سے دوں؟ قریب میں کوئی یتیم بھوکا مر رہا ہے، یا آوارہ پھر رہا ہے تو میں کیوں اس کی خبر گیری کروں؟ اس کا حق اس کے باپ پر تھا، اسے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جانا چاہیے تھا، یا انشورنس کرانا چاہیے تھا۔ کوئی بیوہ اگر میرے محلے میں مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے تو مجھے کیا؟ اس کے شوہر کو اس کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ کوئی مسافر اگر بھٹکتا پھر رہا ہے تو مجھ سے کیا تعلق؟ وہ بے وقوف اپنا انتظام کیے بغیر گھر سے کیوں نکل کھڑا ہوا؟ کوئی شخص اگر پریشان حال ہے تو ہوا کرے، اسے بھی اللہ نے میری ہی طرح ہاتھ پائوں دیے ہیں، اپنی ضرورتیں اسے خود پوری کرنی چاہییں، میں اس کی کیوں مدد کروں؟ میں اسے دوں گا تو قرض دوں گا اور اصل کے ساتھ سود بھی وصول کروں گا کیوںکہ میرا روپیہ کچھ بیکار تو ہے نہیں۔ میں اس سے مکان بنواتا، یا موٹر خریدتا، یا کسی نفع کے کام پر لگاتا۔ یہ بھی اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہی اٹھائے گا۔ پھر کیوں نہ میں اس فائدے میں سے اپنا حصہ وصول کروں؟
خود غرضانہ ذہنیت کے نتائج
اس خود غرضانہ ذہنیت کے ساتھ اوّل تو روپے والا آدمی خزانے کا سانپ بن کر رہے گا، یا خرچ کرے گا تو اپنے ذاتی فائدے کے لیے کرے گا۔ جہاں اس کو اپنا فائدہ نظر نہ آئے گا وہاں ایک پیسہ بھی اس کی جیب سے نہ نکلے گا۔ اگر کسی غریب آدمی کی اس نے مدد کی بھی تو دراصل اس کی مدد نہ کرے گا، بلکہ اس کو لُوٹے گا، اور جو کچھ اسے دے گا اس سے زیادہ وصول کرلے گا۔ اگرکسی مسکین کو کچھ دے گا تو اس پر ہزاروں احسان رکھ کر اس کی آدھی جان نکال لے گا اور اس کی اتنی تذلیل وتحقیر کرے گا کہ اس میں کوئی خود داری باقی نہ رہ سکے گی۔ اگر کسی قومی کام میں حصہ لے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھ لے گا کہ اس میں میرا ذاتی فائدہ کس قدر ہے۔ جن کاموں میں اس کی اپنی ذات کا کوئی فائدہ نہ ہو، وہ سب اُس کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔
اس ذہنیت کے نتائج کیاہیں؟ اس کے نتائج صرف اجتماعی زندگی ہی کے لیے مہلک نہیں ہیں، بلکہ آخر کار خود اس شخص کے لیے بھی نقصان دہ ہیں جو تنگ نظری اور جہالت کی وجہ سے اس کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتا ہے۔ جب لوگوں میں یہ ذہنیت کام کر رہی ہو تو تھوڑے اشخاص کے پاس دولت سمٹ سمٹ کر اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے اور بے شمار اشخاص بے وسیلہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دولت مند لوگ روپے کے زور سے روپیہ کھینچتے رہتے ہیں اور غریب لوگوں کی زندگی روز بروز تنگ ہوتی جاتی ہے۔ افلاس جس سوسائٹی میں عام ہو، وہ طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس کی جسمانی صحت خراب ہوتی ہے۔ اس میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس میں کام کرنے اور دولت پیدا کرنے کی قوت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں جہالت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے اخلاق گرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرنے لگتی ہے اور آخر کار یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ وہ لوٹ مار پر اتر آتی ہے۔ عام بلوے ہوتے ہیں۔ دولت مند لوگ قتل کیے جاتے ہیں۔ ان کے گھر بار لوٹے اور جلائے جاتے ہیں، اور وہ اس طرح تباہ وبرباد ہوتے ہیں کہ ان کا نام ونشان تک دنیا میں باقی نہیں رہتا۔
اجتماع کی فلاح میں فرد کی فلاح ہے
اگر آپ غو رکریں تو آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ درحقیقت ہر شخص کی بھلائی اس جماعت کی بھلائی کے ساتھ وابستہ ہے جس کے دائرے میں وہ رہتا ہے۔ آپ کے پاس جو دولت ہے اگر آپ اس میں سے اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کریں تو یہ دولت چکر لگاتی ہوئی بہت سے فائدوں کے ساتھ پھر آپ کے پاس پلٹ آئے گی، اور اگر آپ تنگ نظری کے ساتھ اس کو اپنے پاس جمع رکھیں گے، یا صرف اپنے ہی ذاتی فائدے پر خرچ کریں گے تو یہ بالآخر گھٹتی چلی جائے گی۔
مثال کے طور پر اگر آپ نے ایک یتیم بچے کی پرورش کی اور اسے تعلیم دے کر اس قابل بنا دیا کہ وہ آپ کی جماعت کا ایک کمانے والا فرد بن جائے تو گویا آپ نے جماعت کی دولت میں اضافہ کیا، اور ظاہر ہے کہ جب جماعت کی دولت بڑھے گی تو آپ، جو جماعت کے ایک فرد ہیں، آپ کو بھی اس دولت میں سے بہرحال حصہ ملے گا، خواہ آپ کو کسی حساب سے یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ حصہ آپ کو اس خاص یتیم کی قابلیت سے پہنچا ہے جس کی آپ نے مدد کی تھی۔ لیکن اگر آپ نے خود غرضی اور تنگ نظری سے کام لے کر یہ کہا کہ میں اس کی مدد کیوں کروں، اس کے باپ کو اس کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑنا چاہیے تھا، تووہ آوارہ پھرے گا، ایک بے کار آدمی بن کر رہ جائے گا۔ اس میں یہ قابلیت ہی پیدا نہ ہو سکے گی کہ اپنی محنت سے جماعت کی دولت میں کوئی اضافہ کر سکے، بلکہ کچھ عجب نہیں کہ وہ جرائم پیشہ بن جائے اور ایک روز خود آپ کے گھر میں نقب لگائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ نے اپنی جماعت کے ایک شخص کو بیکاراور آوارہ اور جرائم پیشہ بنا کر اس کا ہی نہیں، خود اپنا بھی نقصان کیا۔
اس ایک مثال پرقیاس کرکے آپ ذرا وسیع نظر سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جو شخص بے غرضی کے ساتھ جماعت کی بھلائی کے لیے روپیہ صَرف کرتا ہے، اس کا روپیہ ظاہر میں تو اس کی جیب سے نکل جاتا ہے، مگر باہر وہ بڑھتا اور پھلتا پھولتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آخر میں وہ بے شمار فائدوں کے ساتھ اسی کی جیب میں واپس آتا ہے جس سے وہ کبھی نکلا تھا۔ اور جو شخص خود غرضی اور تنگ نظری کے ساتھ روپے کو اپنے پاس روک رکھتا ہے اور جماعت کی بھلائی پر خرچ نہیں کرتا، وہ ظاہر میں تو اپنا روپیہ محفوظ رکھتا ہے، یا سود کھا کر اسے اور بڑھاتا ہے، مگر حقیقت میں اپنی حماقت سے اپنی دولت گھٹاتا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کرتا ہے۔ یہی راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط (البقرہ 2:276)
اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo (الروم 30:39)
تم جو سود دیتے ہو اِس غرض کے لیے کہ یہ لوگوں کی دولت بڑھائے، تو دراصل اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی، البتہ جو زکوٰۃ تم محض خدا کی رضا جوئی کے لیے دو، وہ دوگنی چوگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن اس راز کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں انسان کی تنگ نظری اور اس کی جہالت مانع ہے۔ یہ محسوسات کا بندہ ہے۔ جو روپیہ اس کی جیب میں ہے اس کو تو یہ دیکھ سکتاہے کہ اس کی جیب میں ہے۔ جو روپیہ اس کے بہی کھاتے{ FR 1590 } کی رُو سے بڑھ رہا ہے، اس کو بھی یہ جانتا ہے کہ واقعی بڑھ رہا ہے، مگر جو روپیہ اس کے پاس سے چلا جاتا ہے اس کو یہ نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کہاں بڑھ رہا ہے، کس طرح بڑھ رہا ہے، کتنا بڑھ رہا ہے، اور کب اس کے پاس فائدوں اور منافع کے ساتھ واپس آتا ہے؟ یہ تو بس یہی سمجھتا ہے کہ اس قدر روپیہ میرے پاس سے گیا اور ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
اس جہالت کے بند کو آج تک انسان اپنی عقل یا اپنی کوشش سے نہیں کھول سکا۔ تمام دنیا میں یہی حال ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں کی دنیا ہے جہاں سارے کام سود خواری پر چل رہے ہیں اور دولت کی کثرت کے باوجود روز بروز مصیبتوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا گروہ پیدا ہو چکا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے دل میں حسد کی آگ جل رہی ہے اور جو سرمایہ داروں کے خزانوں پر ڈاکہ مارنے کے ساتھ انسانی تہذیب وتمدن کی ساری بساط بھی الٹ دینا چاہتا ہے۔
مشکلات کا حل
اس پیچیدگی کو اس حکیم ودانا ہستی نے حل کیا ہے جس کی کتابِ پاک کا نام قرآن ہے۔ اس قفل کی کنجی ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر ہے۔ اگر آدمی خدا پر ایمان لے آئے اور یہ جان لے کہ زمین وآسمان کے خزانوں کا اصل مالک خدا ہے، اور انسانی معاملات کا انتظام اصل میں خدا ہی کے ہاتھ میں ہے، اور خدا کے پاس ایک ایک ذرّے کا حساب ہے، اور انسان کی ساری بھلائیوں اور برائیوں کی آخری جزا وسزا ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق آخرت میں ملے گی، تو اس کے لیے یہ بالکل آسان ہو جائے گا کہ اپنی نظر پر بھروسا کرنے کے بجائے خدا پر بھروسا کرے اور اپنی دولت کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ کرے، اور اس کے نفع ونقصان کو خدا پر چھوڑ دے۔ اس ایمان کے ساتھ وہ جو کچھ خرچ کرے گا وہ دراصل خدا کو دے گا۔ اس کا حساب کتاب بھی خدا کے بہی کھاتے میں لکھا جائے گا۔ خواہ دنیا میں کسی کو اس کے احسان کا علم ہو یا نہ ہو، مگر خدا کے علم میں وہ ضرور آئے گا، اور خواہ کوئی اس کا احسان مانے، یا نہ مانے خدا اس کے احسان کو ضرور مانے اور جانے گا۔ اور خدا کا جب یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ وہ اس کا بدلہ دے گا تو یقین ہے کہ وہ اس کابدلہ ضرور دے گا، خواہ آخرت میں دے، یا دنیا اور آخرت دونوں میں دے۔

٭…٭…٭

شیئر کریں