صف بندی کے ان تمام فائدوں کو وہ دعائیں دو آتشہ کر دیتی ہیں، جو نماز میں خدا سے مانگی جاتی ہیں۔ سب یک زبان ہو کر اپنے مالک سے عرض کرتے ہیں کہ:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔
ہم سب کو سیدھے راستے کی ہدایت دے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ۔
ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔
نماز کی دعائوں میں کہیں آپ کو واحد کا صیغہ نہ ملے گا۔ جہاں آپ دیکھیں گے جمع ہی کا صیغہ پائیں گے۔ اجتماعی عبادت اور اجتماعی حرکات کے ساتھ مل کر یہ اجتماعی دُعائیں ہر مسلمان کے ذہن میں یہ نقش ثبت کر دیتی ہیں اور روزانہ ثبت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ اسے سب کچھ تنہا اپنے ہی لیے چاہنا اور مانگنا نہیں ہے، بلکہ اس کی زندگی جماعت کے ساتھ مربوط ہے، جماعت کی بھلائی میں اس کی بھلائی ہے۔ جماعت ہی کے راہ راست پر چلنے میں اس کی خیر ہے۔ خدا کی طرف سے فضل اور سلامتی جماعت پر نازل ہوگی، تب ہی وہ خود بھی اس سے متمتّع ہو سکے گا۔ یہ چیز دماغوں سے انفرادیت (individualism)کو نکالتی ہے، اجتماعی ذہنیت (social mindedness)پیدا کرتی ہے، افراد جماعت میں خیر خواہی کے جذبات اور مخلصانہ محبت کے روابط کو نشوونما دیتی ہے، اور روزانہ پانچ مرتبہ اس طریقہ سے مسلمانوں کے احساس اجتماعیت کو اکسایا جاتا ہے تاکہ مسجد کے باہر زندگی کے وسیع میدان میں ان کا برتائو درست رہے۔