Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
پیش لفظ
مقدمہ
انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُزو پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات
قرآن کی معاشی تعلیمات (۱) بنیادی حقائق
۲۔ جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنا اللہ ہی کا حق ہے
۳۔ حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات
۴۔معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل
۵۔ رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندیِ حدود
۶ ۔ کسبِ مال میں حرام و حلال کا امتیاز
۷۔ کسبِ مال کے حرام طریقے
۸۔ بخل اور اکتناز کی ممانعت
۹۔ زر پرستی اور حرصِ مال کی مذمت
۱۰ ۔ بے جا خرچ کی مذمت
۱۱۔ دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے
۱۲۔ مالی کفّارے
۱۳۔ انفاق کے مقبول ہونے کی لازمی شرائط
۱۵۔ لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح
۱۶۔ اموالِ غنیمت کا خُمس
۱۷۔ مصارفِ زکوٰۃ
۱۸۔ تقسیم میراث کا قانون
۱۹۔ وصیت کا قاعدہ
۲۰۔ نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت
۲۱۔ سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ
۲۲۔ ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ
سرمایہ داری اور اسلام کافرق
۱۔ اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
۲۔ مال جمع کرنے کی ممانعت
۳۔ خرچ کرنے کا حکم
۴۔ زکوٰۃ
۵۔ قانونِ وراثت
۶۔ غنائم جنگ اور اموالِ مفتوحہ کی تقسیم
۷۔اقتصاد کا حکم
اسلامی نظامِ معیشت کے اُصول اور مقاصد( یہ تقریر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انتظامات کی مجلس مذاکرہ میں 17؍ دسمبر 65ء کو کی گئی تھی (مرتب)
اسلام کے معاشی نظام کی نوعیت
نظمِ معیشت کے مقاصد
(ا) انسانی آزادی
(ب) اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی
(ج) تعاون و توافُق اور انصاف کا قیام
بنیادی اصول
شخصی ملکیت اور اس کے حدود
منصفانہ تقسیم
اجتماعی حقوق
زکوٰۃ
قانونِ وراثت
محنت، سرمایہ اور تنظیم کا مقام
زکوٰۃ اور معاشی بہبود
غیر سُودی معیشت
معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کا تعلق
معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول (قرآن کی روشنی میں)
(۱) اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں(۱)
(۲) اخلاقی اور معاشی ارتقاء کا اسلامی راستہ (۱)
(۳) تصوّرِ رزق اور نظریۂ صَرف
(۴)اصولِ صرف
(۵) اصولِ اعتدال
(۶) معاشی دیانت اور انصاف
ملکیت ِ زمین کا مسئلہ
قرآن اور شخصی ملکیت (۱)
(۲) دورِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے نظائر
قسمِ اوّل کا حکم
قسمِ دوم کا حکم
قسم سوم کے احکام
قسمِ چہارم کے احکام
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
عطیۂ زمین من جانب سرکار
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
جاگیروں کے معاملے میں صحیح شرعی رویہ
حقوقِ ملکیت کا احترام
(۳) اسلامی نظام اور انفرادی ملکیت
(۴) زرعی اراضی کی تحدید کا مسئلہ
(۵) بٹائی ( ایک سوال کے جوا ب میں ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۵۰ء۔) کا طریقہ اور اسلام کے اصول انصاف
(۶)ملکیت پر تصرف کے حدود
مسئلۂ سود
(۱) سود کے متعلق اسلامی احکام( ماخوذ از ’’سود‘‘۔)
ربوٰا کا مفہوم
جاہلیت کا ربٰوا
بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق
علتِ تحریم
حُرمتِ سود کی شدت
(۲)سود کی ’’ضرورت‘‘… ایک عقلی تجزیہ( ماخوذ از ’سود‘۔)

معاشیات اسلام

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اجتماعی حقوق

پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی القُربیٰ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی کی کمائی پر اس کی اپنی ذات کے سوا اس کے رشتے داروں کا حق بھی ہے۔ معاشرے کے اندر ایک ایک آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنی ضرورت سے زائد دولت رکھتا ہے اور اس کے اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ضرورت سے کم دولت مل رہی ہے تو اس شخص کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک ان کی مدد کرے۔ کسی قوم میں ایک ایک خاندان کے لوگ اپنی اس ذمے داری کو محسوس کریں تو بحیثیت مجموعی قوم کے بیشتر خاندانوں کو سنبھالنے کا انتظام ہوسکتا ہے اور کم ہی خاندان ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بیرونی امداد کے محتاج ہوں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید حقوق العباد میں سب سے پہلے ماں، باپ اور رشتے داروں کے حق کا ذکر کرتا ہے۔
اسی طرح قرآن آدمی کی دولت پر اس کے ہمسایوں کا حق بھی عائد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر محلے، ہر گلی اور ہر کوچے میں جو لوگ نسبتاً خوش حال ہوں وہ ان لوگوں کو سنبھالیں جو اسی محلے اور گلی اور کوچے میں نسبتاً بدحال اور دست گیری کے محتاج پائے جاتے ہوں۔
ان دو ذمہ داریوں کے بعد قرآن ہر کھاتے پیتے آدمی پر یہ ذمے داری بھی ڈالتا ہے کہ وہ اپنی حدِ وسع تک ہر اس شخص کی مدد کرے جو مدد مانگے یا مدد کا محتاج ہو۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ للِّسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ، (لوگوں کے مالوں میں حق ہے سائل کا اور محروم کا)۔ سائل وہ ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتا ہے۔ اس سے مراد یہ پیشہ ور بھیک منگے نہیں ہیں جنھوں نے بھیک کو ہی وسیلۂ معاش بنا رکھا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو واقعی حاجت مند ہو اور آپ سے آکر درخواست کرے کہ آپ اس کی مدد کریں۔ آپ یہ اطمینان ضرور کرلیں کہ یہ واقعی حاجت مند ہے۔ لیکن اگر معلوم ہوجائے کہ وہ حاجت مند ہے، اور آپ اپنی ضرورت سے زائد روپیہ بھی رکھتے ہیں جس سے اس کی مدد کرنا آپ کے لیے ممکن ہے، تو پھر آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے مال میں اس کا بھی حق ہے۔ رہا محروم تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے تو نہیں آتا مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنا رزق پانے سے یا پوری طرح پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ یہ شخص بھی آپ کے مال میں حقدار ہے۔
ان حقوق کے علاوہ اسلام نے مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم دے کر پورے معاشرے اور ریاست کا حق بھی ان کے مالوں میں قائم کر دیا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو ایک فیاض، فراخ دل، حساس اور ہمدردِ خلائق ہستی ہونا چاہیے، اور اس کو کسی خود غرضانہ جذبے سے نہیں بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے بھلائی کے ہر کام میں، دین اور معاشرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے میں کھلے دل سے اپنی دولت خرچ کرنی چاہیے۔ یہ ایک زبردست اخلاقی روح ہے جسے اسلام اپنی تعلیم اور تربیت سے اور اسلامی معاشرے کے اجتماعی ماحول سے ہر فرد مسلم میں پیدا کرتا ہے تا کہ وہ کسی جبر سے نہیں بلکہ اپنے دل کی رضا سے اجتماعی فلاح میں مددگار ہو۔

شیئر کریں