ہمارے ان اجتماعات کا مقصد کوئی مظاہرہ کرنا اور ہنگامہ برپاکرکے لوگوںکواپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے۔ ہمار ی غرض ان سے صرف یہ ہے کہ ہمارے ارکان ایک دوسرے سے متعارف اور مربوط ہوں ،ان کے درمیان اجنبیت اور نا آشنا ئی باقی نہ رہے،وہ ایک دوسرے سے قریب ہوں اور باہمی مشورے سے تعاون کی صورتیں نکالیں اور اپنے کام کو آگے بڑھانے اور مشکلاتِ راہ اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں سوچیں اور اس کے علاوہ ہمارے پیش نظر ان اجتماعات سے یہ فائدہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے کام کا جائزہ لینے اور اس کی کمزوریوں کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کا وقتًافوقتًاموقع ملتا رہتا ہے نیزہمارے کام کے متعلق کچھ لوگ شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان کو بھی یہ موقع مل جاتا ہے کہ بالمشافہ ہماری دعوت اور ہمارے کام کو سمجھیں…اور ان کا دل گواہی دے کہ ہم واقعی حق پرہیںتوہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ بہت سی غلط فہمیاںایسی ہوتی ہیں کہ وہ صرف دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں۔محض قرب اور مشاہدہ ومعائنہ اور شخصی تعلق ہی ایسی غلط فہمیوں کورفع کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ان حضرات کے بھی شکر گزار ہیں جو اپنا وقت اوراپنا مال صرف کرکے ہمارے ان اجتماعات میں محض ہماری بات کوسمجھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ ہم ان کی جستجوئے حق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں ان کی دلچسپی کاکوئی سامان نہیں ہے وہاں وہ محض اس وجہ سے آتے ہیں کہ اﷲکے کچھ بندے جواﷲکانام لے کر ایک کام کررہیںہیںان کے متعلق تحقیق کریں کہ واقعی ان کا کام کس حد تک اﷲکاہے۔ اور اﷲکے لیے ہے۔ یہ مخلصانہ حق جوئی اگر ذہن ودماغ کی صفائی کے ساتھ بھی ہو تو اللہ ان کی سعی وجستجوکوضائع نہ ہونے دے گا اور ضرور انہیں حق کے نشانات راہ دے گا۔
چونکہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگو ں کی ہے جو یہ جانناچاہتے ہیں کہ ہماری دعوت اور ہمارا مقصدکیا ہے اور کس طریقے سے ہم اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے میں انہی دوامور پرکچھ عرض کروں گا۔
ہماری دعوت کیا ہے ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جوبات کہی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٓـہٰیہ کے قیا م کی دعوت دیتے ہیںحکومت الٓہٰیہ کا لفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیداکرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیداکرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔‘‘
لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیںایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٓہٰیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ موجود نظام کی وہ مخصوص جگہ سیاسی نظام قائم ہوپھرچونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ وہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصّہ لے رہے ہوں اس لیے خود بخود اس تصورمیں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یاہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دیندارانہ وعظ شروع ہوتا ہے اور ہم سے کہاںجاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے حالانکہ مسلمان کے پیش نظردین اور آخرت ہونی چاہیے اور یہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دیندارانہ زندگی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے۔ یہ باتیں کہیں تونافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگرہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے بڑے حصّہ کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلاکیا جائے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچرکو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پرباآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظرصرف ایک سیاسی نظام کا قیا م نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی …انفرادی واجتماعی …میں وہ ہمہ گیرانقلاب رونماہو۔ جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیا ء علیہم السلام کی امامت ورہنمائی میں اُمت مسلمہ کے نا م سے ایک گروہ بنتارہاہے