اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ مولانا اپنے مُدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظرانداز کرجاتے ہیں۔ یورپ جب مسلمانوں میں نسلی، وطنی اور لسانی قومیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا تو کیا مسلمانوں میں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا؟ کیا ٹیپوسلطان، جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدُہٗ، مصطفیٰ کامل مصری، امیرشکیب ارسلان، انورپاشا، جلال نوری بے، شبلی نعمانی، سیّد سلیمان ندوی، محمودالحسن ، محمدعلی، شوکت علی، اقبال، ابوالکلام… کسی کا نام بھی مولانا نے نہیں سنا؟ کسی کے کارنامے ان تک نہیں پہنچے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کو متنبہ نہیں کیا کہ یہ جاہلیت کی تفریق تم کو تباہ کرنے کے لیے برپا کرائی جارہی ہے؟ شاید مولانا ان سوالات کا جواب نفی میں نہ دیں گے۔ مگر وہ ان سب واقعات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے فرماتے ہیں کہ ’’افسوس مسلمانوں میں اُس وقت کوئی مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت کا واعظ کھڑا نہ ہوا‘‘…ایسا غلط دعویٰ کرنے کی آخر ضرورت کیا تھی؟ مقصود صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ پہلے مسلمانوں کی قومی وحدت برطانوی مفاد کے خلاف تھی، اس لیے سب مسلمان نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات پھیلانے میں لگے ہوئے تھے، اور اب اسلامی وحدت برطانوی اَغراض کے لیے مفید ہوگئی ہے، اس لیے اس کا وعظ ابھی ابھی شروع ہوا ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ وطن پرستی کے مخالف سب کے سب برطانیہ پرست ہیں اور محض ساحر ِ برطانیہ کا سحر ان کے اندر بول رہا ہے… یہ ہے نتیجہ عصبیت ِ جاہلیہ کا۔ چونکہ حق و باطل کا معیار ’’برطانیہ‘‘ ہوگیا ہے اس لیے خلافِ واقعہ باتوں کی تصنیف بھی جائز ہوگئی۔ اگر ان سے برطانیہ کے خلاف کوئی کام لیا جاسکے۔
یہی ذہنیت ہے جو ہمیں پورے رسالہ میں کارفرما نظر آتی ہے۔ لغت کو،آیاتِ قرآنی کو، اخبار و احادیث کو، تاریخی واقعات کو، غرض ہر چیز کو توڑ مروڑ کر اپنا مُدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ہر اُس چیز کو بلاتکلف نظرانداز کردیا گیا ہے جو مُدعا کے خلاف ہو، چاہے وہ کیسی ہی ظاہروباہر حقیقت کیوں نہ ہو۔ حد یہ ہے کہ لفظی مغالطے دینے اور قیاس مع الفارق اور بنافاسد علی الفاسد کا ارتکاب کرنے میں بھی تامل نہیں فرمایا گیا۔ ایک عالم اور متقی عالم کا یہ کارنامہ دیکھ کر آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ اسے کیا کہیے۔