Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اتباع اور اطاعت رسول

صاحب تعلیمات قرآن نے رسالت اور اس کے احکا م کی تشریح کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ میرے نزدیک رسالت کے اس تصور سے موافقت نہیں رکھتے جو قرآن پیش کرتا ہے کتاب کے صفحہ ۵۹ پر فاضل مولف نے لکھا ہے:
اصولی قانون صرف اللہ کی کتاب ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ اعراف7:3
جو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے اُوپر اتارا گیاہے اسی کی پیروی کرو اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو۔
جملہ ضوابط اسی کی روشنی میں باہمی مشورے سے بنائے جائیں گے:
وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ شوریٰ38:42
اور ان کی حکومت آپس کے مشورے سے ہے۔
یہاں مولف نے بیچ میں سے اسوۂ رسول کو صاف اڑا دیا ہے۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم سے اصول لے کر مسلمان باہمی مشورے سے تفصیلی قوانین وضع کر لیا کریں۔ لیکن ان دونوں کڑیوں کے درمیان سلسلے کی ایک اورکڑی بھی تھی جس کو خود اللہ تعالیٰ نے اس زنجیر میں پیوست کیا تھا۔ وہ کڑی یہ ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران31:3
اے محمد! کہو کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا تم سے محبت کرے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اصولی قانون قرآن ہی ہے، مگر یہ قانون ہمارے پاس بلاواسطہ نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ رسول خدا کے واسطے سے بھیجا گیا ہے۔ اور رسول کو درمیانی واسطہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ اصولی قانون کو اپنی اور اپنی امت کی عملی زندگی میں نافذ کرکے ایک نمونہ پیش کر دیں، اور اپنی خداداد بصیرت سے ہمارے لیے وہ طریقے متعین کردیں جن کے مطابق ہمیں اس اصولی قانون کو اپنی اجتماعی زندگی اور انفرادی برتائو میں نافذ کرنا چاہیے۔ پس قرآن کی رُو سے صحیح ضابطہ یہ ہے کہ پہلے خدا کا بھیجا ہوا قانون، پھر خدا کے رسول کا بتایا ہوا طریقہ، پھر ان دونوں کی روشنی میں ہمارے اولی الامر کا اجتہاد۔
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4
اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولی الامر کی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو تو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔
فَرُدُّوْہٗ اِلَی اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلِ کا فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے۔مسائلِ شرعی میں جب مسلمانوں کے درمیان نزاع اور اختلاف واقع ہو تو حکم ہے کہ خدا اوررسول کی طرف رجوع کرو۔ اگر مرجع صرف قرآن مجید ہوتا تو صرف فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ کہنا کافی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وَالرَّسُوْلِ بھی کہا گیا ہے جس میں صاف اشارہ ہے کہ قرآن کے بعد رسول کا طریقہ تمھارے لیے مرجع ہے۔
اس کے بعد مؤلف نے صفحہ ۱۲۸ پر لکھا ہے:
مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ۝۰ۭ المائدہ99:5
رسولوں کے اوپر کچھ نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ (پیغام) پہنچا دیں۔
وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo یٰس17:36
ہمارے اوپر سوائے واضح تبلیغ کے اور کچھ نہیں ہے۔
آگے چل کر صفحہ ۱۵۵ پر لکھتے ہیں:
اور بحیثیت منصب رسالت رسول کا فریضہ صرف پیغام الٰہی کی تبلیغ ہے اور بس۔
اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰــغُ۝۰ۭ الشوریٰ48:42
تیرے اوپر صرف تبلیغ ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo التغابن12:64
اگر تم نے منہ پھیر لیا تو ہمارے رسول پر صرف کھلی ہوئی تبلیغ ہے اور بس۔
فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُo الرعد40:13
تجھ پر پہنچانا ہے اور ہمارے اوپر حساب لینا ہے۔
یہاں مؤلف نے آیات کے سیاق و سباق اور فحوائے کلام کو نظر انداز کرکے رسول کی حیثیت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ گویا وہ محض ایک نامہ بریا نعوذ باللہ ڈاک کا ہر کارہ ہے۔ لیکن اگر وہ ان جملوں کو ان عبارات کے سیاق و سباق سے ملا کر پڑھتے جن میں یہ وارد ہوئے ہیں تو انھیں خود معلوم ہو جاتا کہ دراصل یہ جو کچھ کہا گیا ہے، یہ نبی پر ایمان لانے والوں سے نہیں بلکہ ان کا انکار کرنے والوں سے تعلق رکھتا ہے جو لوگ رسول کی تعلیم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اور بار بار رسول کو جھٹلاتے تھے، ان سے کہا گیا ہے کہ رسول کاکام تم تک ہمارا پیغام دینا ہے سو اس نے پہنچا دیا۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس کوئی رہنما نہیں بھیجا گیا، مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ المائدہ19:5 اب خدا پر تمھاری کوئی حجت نہیں رہی۔ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۝۰ۭ النساء165:4 اب تم نہ مانو گے تو اپنا کچھ بگاڑو گے، فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِo المائدہ12:5 اسی سلسلے میں رسول اللہ سے بھی فرمایا گیا ہے کہ تم ان کافروں کی روگردانی سے دل گرفتہ کیوں ہوتے ہو؟ تم ان پر داروغہ نہیں بنائے گئے ہو۔ تمھارے سپرد جو خدمت کی گئی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ ان کے سامنے سیدھا راستہ پیش کر دو، سو وہ تم نے پیش کر دیا۔ اب رہی یہ بات کہ وہ اس راستے پر آتے ہیں یا نہیں تو اس بارے میں کوئی ذمہ داری تم پر نہیں۔ تمھارا یہ کام نہیں کہ ان کو کھینچ کر اس راستے کی طرف لائو اگر وہ تمھاری تعلیم و تبلیغ سے منہ موڑ کر ٹیڑھے راستوں پر چلتے ہیں تو ان کے اس فعل کی کوئی باز پرس تم سے نہ ہوگی۔ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝۰ۭ اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰــغُ۝۰ۭ الشُوریٰ48:42 فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌo لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍo الغاشیہ21-22:88
یہ سب کچھ کفار کے مقابلے میں ہے۔ رہے وہ لوگ جو اسلام قبول کرلیں اور امت مسلمہ میں داخل ہو جائیں، تو ان کے لیے رسول کی حیثیت محض پیغام پہنچا دینے والے کی نہیں ہے، بلکہ رسول ان کے لیے معلم اور مربی بھی ہے، اسلامی زندگی کا نمونہ بھی ہے اور ایسا امیر بھی ہے جس کی اطاعت ہر زمانے میں بے چون و چرا کی جانی چاہیے۔ معلم کی حیثیت سے رسول کاکام یہ ہے کہ پیغام الٰہی کی تعلیمات اور اس کے قوانین کی تشریح و توضیح کرے (وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ) (البقرہ129:2)، مربی ہونے کی حیثیت سے اس کاکام یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور قوانین کے مطابق مسلمانوں کی تربیت کرے اور ان کی زندگیاں اسی سانچے میں ڈھالے (وَیُزکِّیْھِمْ)،نمونہ ہونے کی حیثیت سے اس کاکام یہ ہے کہ خود قرآنی تعلیم کا عملی مجسمہ بن کر دکھائے، تاکہ اس کی زندگی اس زندگی کی ٹھیک ٹھیک تصویر ہو جو کتاب اللہ کے مقصود کے مطابق ایک مسلمان کی زندگی ہونی چاہیے، اور اس کے ہر قول اور ہر فعل کو دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ زبان کو اس طرح استعمال کرنا، اور اپنی قوتوں سے یوں کام لینا، اور دنیا کی زندگی میں ایسا برتائو رکھنا کتاب اللہ کے مقصود کے مطابق ہے، اور جو کچھ اس کے خلاف ہے وہ منشائے کتاب کے خلاف ہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ احزاب21:33 اور وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 3-4:53 اس کے ساتھ ہی رسول کی حیثیت مسلمانوں کے امیر کی بھی ہے۔ ایسا امیر نہیں جس سے نزاع کی جائے، بلکہ ایسا امیر جس کے حکم کو بے چون و چراماننا ویسا ہی فرض ہے جیسا قرآن کی آیات کو ماننا فرض ہے فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4 اور مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4 ایسا امیر نہیں جو صرف اپنی زندگی ہی میں امیر ہوتا ہے، بلکہ ایسا امیر جو قیامت تک کے لیے امت مسلمہ کا امیر ہے، جس کے احکام مسلمانوں کے لیے ہر زمانے اور ہر حال میں مرجع ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کی جتنی آیات اوپر پیش کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی زمانے کے ساتھ مقید نہیں ہے، نہ منسوخ ہے۔
مؤلف نے منصب رسالت کے ان مراتب کو سمجھنے میں تین بہت بڑی غلطیاں کی ہیں:
(۱) پہلی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے بعض آیات کا غلط مفہوم لے کر رسول کاکام صرف تبلیغ (یعنی نامہ بری) میں محدود کر دیا۔ حالانکہ رسول کی مبلغانہ حیثیت صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل نہ ہوں، اور صرف ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے رسول کی تعلیم کو ابھی قبول نہ کیا ہو۔ رہے وہ لوگ جو اسلام قبول کرکے امت مسلمہ میں داخل ہو جائیں، تو ان کے لیے رسول کی حیثیت محض مبلغ کی نہیں ہے بلکہ وہ ان کا لیڈر ہے، فرماں رواں ہے، مقنن ہے، معلم ہے، مربی اور واجب التقلید نمونہ ہے۔
(۲) مؤلف کی دوسری غلطی اسی پہلی غلطی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جب انھوں نے رسول کو مسلمانوں اور غیر مسلموں، سب کے لیے محض مبلغ قرار دے لیا تو ان کو یہ زحمت پیش آئی کہ قرآن میں جو رسول کو مسلمانوں کے لیے معلم اور مربی اور نمونہ قرار دیا گیا ہے اس کا کیا مفہوم معین کیا جائے۔ آخر کار انھوں نے رسول کی ان سب حیثیات کو تبلیغ ہی کے ضمن میں شامل کر دیا، اور اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ مبلغانہ حیثیت کے ماسوا آں حضرت کی زندگی کے اور جتنے پہلو ہیں وہ سب آپ کی شخصی (پرائیویٹ) حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’آیت وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 3-4:53 کا یہ مفہوم قرار دینا کہ رسول اللہ جو کچھ کلام کرتے تھے وہ سب کا سب وحی تھا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ دعویٰ قرآن کے وحی ہونے کا تھا جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ جو کچھ وہ بولتے ہیں وحی ہے۔ گھر یا ازواج مطہرات یا باہر دیگر حضرات سے جو گفتگو فرماتے تھے اس کے متعلق نہ وحی ہونے کا دعویٰ تھا نہ کفار کو کوئی بحث تھی۔‘‘
اس تقریر کو جب ہم مؤلف کی ان عبارتوں کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’رسول کا کام صرف پیغام الٰہی کی تبلیغ ہے اور بس‘‘ اور ’’رسول کی اطاعت کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کا پیغام جو وہ لایا ہے اس پر عمل کیا جائے‘‘ اور یہ کہ’’ہمارے رسول صرف اللہ کی کتاب یعنی قرآن کے مبلغ تھے،‘‘ تو اس سے مؤلف کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمدؐ بن عبداللہ بحیثیت رسول، اور محمد بن عبداللہ بحیثیت انسان کے درمیان فرق کر دیں۔ رسول ہونے کی حیثیت سے آنحضرت قرآن کی جو تعلیم دیں اور قرآن کے مطابق جو احکام دیں، وہ تو مؤلف کے نزدیک سمع و اطاعت کے مستحق ہیں، مگر بحیثیت انسان آپ کے اقوال و افعال ویسے ہی ہیں جیسے ایک انسان کے ہوتے ہیں۔ ان کا خدا کی طرف سے ہونا، اور ضلالت و گمراہی سے پاک ہونا مؤلف کے نزدیک مسلم نہیں ہے، اور نہ جناب مؤلف ان کے اندر امت مسلمہ کے لیے کوئی قابل تقلید نمونہ پاتے ہیں۔
لیکن یہ تفرق جو انھوں نے محمد بن عبداللہ بحیثیت انسان اور محمد رسول اللہ بحیثیت مبلغ کے درمیان کی ہے، قرآن مجید سے ہرگز ثابت نہیں۔ قرآن میں آنحضرت کی ایک ہی حیثیت بیان کی گئی ہے اور وہ رسول و نبی ہونے کی حیثیت ۱؎ ہے۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب رسالت سے سرفراز کیا اس وقت سے لے کر حیات جسمانی کے آخری سانس تک آپ ہر آن اور ہر حال میں خدا کے رسول تھے۔ آپؐ کا ہر فعل اور ہر قول رسول خدا کی حیثیت سے تھا۔ اسی حیثیت میں آپ مبلغ اور معلم بھی تھے، مربی ّ اور مزکّی بھی تھے، قاضی اور حاکم بھی تھے، حتیٰ کہ آپ کی نجی اور خاندانی اور شہری زندگی کے سارے معاملات بھی اسی حیثیت کے تحت آگئے تھے، اور ان تمام حیثیتوں میں آپ کی پاک زندگی ایک انسان کامل اور مسلم قانت اور مومن صادق کی زندگی کا ایسا نمونہ تھی جس کو حق تعالیٰ نے ہر اس شخص کے لیے بہترین قابل تقلید نمونہ قرار دیا تھا جو اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہو، لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ احزاب21:33 قرآن مجید میں کہیں کوئی خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بنا پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت رسالت اور حیثیت انسانی اور حیثیت امارت میں کوئی فرق کیا گیا ہو۔ اور یہ فرق کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جب آپ خدا کے رسول تھے تو لازم تھا کہ آپ کی پوری زندگی خدا کی شریعت کے ماتحت ہو، اور اس شریعت کی نمایندہ ہو، اور آپ سے کوئی ایسا فعل اور کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہو جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔
اسی بات کی طرف سورۂ و النجم کی ابتدائی آیات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَویٰ تمھارا صاحب (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم)، نہ بدراہ ہوا، نہ گمراہ ہوا، وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اور جو کچھ کہتا ہے ہوائے نفس کی بنا پر نہیں کہتا اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی اس کی بات کچھ نہیں ہے مگر وحی جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔ عَلَّمَہ ٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی اس کوایسے استاد نے تعلیم دی ہے جس کی قوتیں بڑی زبردست ہیں۔
جناب مؤلف فرماتے ہیں کہ ان آیات میں محض قرآن کے وحی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ لیکن مجھے ان آیات میں کہیں کوئی خفیف سا اشارہ بھی قرآن کی طرف نظر نہیں آتا۔ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی میں ھُوَ کی ضمیر نطق رسول کی طرف پھرتی ہے جس کا ذکر وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی میں کیا گیا ہے۔ ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بنا پر وحی ہوگی اور ہوائے نفس سے پاک ہوگی۔ یہ تصریح قرآن میں اسی لیے کی گئی ہے کہ رسول کو جن لوگوں کے پاس بھیجا گیا ہے ان کو رسول کے بدرا ہی اور گمراہی اور ہوائے نفس سے محفوظ ہونے کا کامل اطمینان ہو جائے اور وہ جان لیں کہ رسول کی ہر بات خدا کی طرف سے ہے۔ ورنہ اگر کسی ایک بات میں بھی یہ شبہ ہو جائے کہ وہ خواہش نفس پر مبنی ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے تو رسول کی رسالت پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ کفار اسی چیز کے منکر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول کو جنون ہے، یا کوئی آدمی اس کو پڑھاتا ہے، یا وہ اپنے دل سے باتیں بنا کر کہتا ہے۔ حق تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما کر اس غلط خیال کی تردید کی ہے اور صاف الفاظ میں فرما دیا ہے کہ نہ تمھارا صاحب بدراہ ہے نہ گمراہ ہے اور نہ خواہش نفس کی بنا پر کچھ کہتا ہے۔ اس کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے حق نکلتا ہے جو خاص ہماری طرف سے ہے اور اس کو کوئی انسان یا جن یا شیطان نہیں پڑھاتا بلکہ وہ معلم سبق دیتا ہے جو شدید القویٰ ہے۔ یہی بات خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمائی کہ فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلاَّ حَقًّا۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے جو کچھ نکلتا ہے حق ہی نکلتا ہے۔
افسوس ہے کہ صاحب تعلیمات قرآن کو اس حقیقت سے انکار ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتؐ اپنے گھر میں ازواج مطہرات سے یا باہر دیگر حضرات سے جو گفتگو فرماتے تھے اس کے متعلق نہ وحی ہونے کا دعویٰ تھا نہ کفار کو کوئی بحث تھی۔ میں کہتا ہوں کہ آنحضرت جس وقت جس حالت میں جو کچھ بھی کرتے تھے رسول کی حیثیت سے کرتے تھے۔ سب کچھ ضلالت و غوایت اور ہوائے نفس سے پاک تھا۔ اللہ نے جو فطرت سلیمہ آپ کو عنایت فرمائی تھی، اورتقویٰ و پاکیزگی کے جو حدود آپ کو بتائے تھے، آپ کے تمام اقوال و افعال اسی فطرت سے صادر اور انھی حدود سے محدود ہوتے تھے۔ ان کے اندر تمام عالم انسانی کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تھا، اور ہم انھیں سے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز، کون سی چیز حرام ہے اور کون سی حلال، کون سی باتیں حق تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہیں اور کون سی اس کے خلاف ہیں، کن امور میں ہم کو رائے اور اجتہاد کی آزادی حاصل ہے اور کن امور میں نہیں ہے، کس طرح ہم اطاعت امر کریں، کس طرح شوریٰ سے معاملات طے کریں اور کیا معنی ہیں ہمارے دین میں جمہوریت کے۔
(۳) مؤلف کی تیسری بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کی حیثیت امارت کو حیثیت رسالت سے الگ کر دیا ہے جس کا ثبوت قرآن میں نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ۔
’’اطاعت بحیثیت رسول اور اطاعت بحیثیت امیر میں دو باتوں کا فرق ہے:
(۱) بحیثیت رسالت رسول اللہ کو کسی سے مشورہ لینے کا حکم نہ تھا بلکہ فریضۂ تبلیغ اللہ کی طرف سے آپ کے ذمے لازم کیاگیا تھا، يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ المائدہ67:5 اور امیر کی حیثیت سے لوگوں سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ آل عمران159:3
(۲) بحیثیت رسول آپ کی اطاعت قیامت تک فرض ہے کیونکہ قرآن ہمیشہ کے لیے ہے۔ لیکن بحیثیت امیر آپ کی اطاعت بالمشافہ تھی يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo انفال20:8 اور امارت کے فرائض ہمیشہ ہنگامی ہوں گے کیونکہ زمانے کے ساتھ ساتھ ماحول بھی بدلتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آج جو امیر ہوگا وہ غزوۂ بدر واحد کی متابعت میں صرف نیزہ و شمشیر سے جہاد میں کام نہ لے گا بلکہ موجودہ زمانے کے اسلحے استعمال کرے گا۔ امرا کے مقابلے میں منازعت کا حق حاصل ہے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4
یہ سب کچھ قرآن کے منشا کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ مؤلف نے یہ نہیں سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے بنائے ہوئے امیر نہیں تھے، نہ خود بن گئے تھے، بلکہ خدا کے مقرر کیے ہوئے امیر تھے۔ آپ کی امارت آپ کی رسالت سے الگ نہ تھی۔ دراصل آپ رسول خدا ہونے کی حیثیت سے ہی امیر تھے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ آپ امیر نہیں بلکہ مامور من اللہ تھے۔ مؤلف نے اسی حقیقت کو نہیں سمجھا اسی لیے رسول اللہ کی حیثیت امارت کو عام امرا کی سی حیثیت امارت سمجھ لیا۔
اپنے اس خیال کی تائید میں مولف نے قرآن کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان کو بھی وہ ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھے ہیں۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر وہ اس لیے تھا کہ آپ اپنی امت کے لیے مشاورت کا نمونہ پیش کریں اور خود اپنے عمل سے جمہوریت (democracy)کے صحیح اصول کی طرف رہنمائی کریں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ آپ کی حیثیت دوسرے امرا کی سی ہے۔ دوسرے امرا کے لیے تو یہ قانون مقرر کیا گیا ہے کہ وہ مشورے سے کام کریں، وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ الشوریٰ38:42 اور یہ کہ اگر شوریٰ میں نزاع ہو تو وہ خدا اور رسول کی طرف رجوع کریں، فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4 لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جب آپ کسی بات کا عزم فرمالیں تو خدا پر بھروسہ کرکے عمل کا اقدام فرمائیں،فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ آل عمران159:3 اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ مشورہ کے محتاج نہ تھے بلکہ آپ کو شوریٰ کا حکم صرف اس لیے دیا گیا تھا کہ آپ کے مبارک ہاتھوں سے ایک صحیح جمہوری طرزِ حکومت کی بنیاد پڑ جائے۔
رہی یہ بات کہ امیر کی حیثیت سے آنحضرت صلعم کی اطاعت صرف آپ کے عہد تک تھی، تو یہ بھی غلط ہے اور جس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اس سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ مؤلف نے وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ سے یہ سمجھا ہے کہ اطاعت رسول کا حکم صرف ان لوگوں کو دیا گیا تھا جو اس وقت اس حکم کو سن رہے تھے۔ لیکن اگر وہ سورۂ انفال کو ابتدا سے پڑھتے تو ان کو معلوم ہو جاتاکہ وہاں مقصود ہی کچھ اور ہے۔ ابتدا میں فرمایا گیا ہے کہ وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo الانفال8 :1 اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر ان لوگوں کو ڈانٹا گیا ہے جو رسول اللہ کی دعوت جہاد پر دلوں میں کڑھتے تھے۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِo الانفال14:8 اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرتا ہے اسے معلوم ہو جائے کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس کے بعد یہ ارشاد ہوا ہے کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo۱؎ الانفال20:8 اس آیت میں اور پچھلی تمام آیات میں رسول کے ساتھ اللہ کی اطاعت کا ذکر بار بار کیاگیا ہے جس سے یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ رسول کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ پھر ہر جگہ لفظ رسول آیا ہے۔ امیر کا لفظ کسی جگہ بھی استعمال نہیں کیا گیا، اور نہ کوئی مخفی سے مخفی اشارہ ایسا موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ یہاں رسول اللہ سے مراد رسول کی ایسی امیرانہ حیثیت ہے جو رسالت سے مختلف ہو۔ پھر رسول کے حکم سے منہ موڑنے کو منع کیا گیا ہے جس پر سخت عذاب کی دھمکی اوپر دی جا چکی ہے۔ اس کے بعد وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ کہنے کا منشا صاف یہ ہے کہ تم ہمارے ان تاکیدی احکام کو سنتے ہوئے ہمارے رسول کی اطاعت سے کبھی منہ نہ موڑو۔ اس اَنْتُمْ اور تَسْمَعُوْنَ کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو اس وقت موجود تھے، بلکہ قیامت تک جو لوگ ایمان کے ساتھ قرآن کو سنیں گے ان سب پر لازم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حکم ان کو پہنچے اس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیں۔
اور یہ مؤلف نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض امارت اسی طرح ہنگامی ہیں جس طرح دوسرے امرا کے ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ آج ہم جہاد میں بدر و احد کی طرح نیزہ و شمشیر سے نہیں لڑ سکتے، تو یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں جن اسلحہ سے کام لیا وہ اسلحہ تو ضرور ایک خاص ماحول سے تعلق رکھتے تھے، لیکن حضورؐ نے اپنی لڑائیوں میں جو اخلاقی ضوابط برتے تھے اور جن ضوابط کو برتنے کی ہدایت فرمائی تھی وہ کسی عہد کے لیے مخصوص نہ تھے، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک دائمی قانون جنگ بنا دیا ہے۔ شرعی نقطۂ نگاہ سے یہ سوال اہمیت نہیں رکھتا کہ آپ تلوار استعمال کرتے ہیں یا بندوق یا توپ۔ بلکہ اہمیت اس سوال کی ہے کہ آپ اپنے اسلحے کو کس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کس طرح ان سے خوںریزی کاکام لیتے ہیں۔ اس باب میں جو نمونہ آنحضرت صلعم نے اپنے غزوات میں پیش فرمایا ہے وہ ہمیشہ کے اسلامی جہاد کا ایک مکمل نمونہ ہے اور معنوی حیثیت سے سرور عالم قیامت تک کے لیے ہر مسلمان فوج کے سالار اعظم ہیں۔
مؤلف نے امارت اور رسالت میں ایک فرق اور بھی بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے امرا سے نزاع اور اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امیرانہ حیثیت ویسی ہی ہے جیسی دوسرے امرا کی ہے۔ تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی مسلمان کو نزاع کا حق حاصل تھا؟ جس امیر کے مقابلے میں آواز بلند کرنے تک کی اجازت نہ تھی، اور جس کے مقابلے میں محض اونچی آواز سے بولنے پر تمام عمر کے اعمال غارت ہو جانے کی دھمکی دی گئی تھی (حجرات) اور جس سے جھگڑا کرنے والے کو دوزخ میں جھونک دیئے جانے کا خوف دلایا گیا تھا (النساء: ۱۷) کیا اس امیر سے منازعت کرنے کا حق کسی مسلمان کو حاصل ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کہاں اس امیر کی امارت اور کہاں ان امرا کی امارت جن سے منازعت کا حق مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔
مؤلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت امارت اور عام امرا کی حیثیت امارت میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے، حتیٰ کہ ان تمام احکام کو جو اطاعت رسول سے متعلق ہیں، اطاعت امیر کے احکام قرار دے دیا ہے۔ صفحہ ۱۵۷ کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
’’اللہ اور رسول کے الفاظ قرآن میں اکثر جہاں جہاں ساتھ ساتھ آئے ہیں ان سے مراد امارت ہے جس کا قانون کتاب اللہ ہے اور جس کے نافذ کرنے والے رسول اللہ یا ان کے جانشین ہیں۔ مثلاً يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ۝۰ۭ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ۝۰ۚ الانفال8:1 مال غنیمت کا حکم عہد رسالت تک محدود نہ تھا بلکہ آیندہ کے لیے بھی ہے جس کی تعمیل خلافت کا فریضہ ہے۔‘‘
پھرفَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ النساء59:4 کے متعلق صفحہ۱۵۸ پر حاشیہ لکھتے ہیں:
’’آخری اختیار اللہ و رسول یعنی امارت ہے اس لیے رسول اللہ کا جو منصب بحیثیت امیر کے ہے وہی ان کے خلفا کا بھی ہوگا۔‘‘
یہ حق سے صریح تجاوز ہے۔ قرآن مجید میں اطاعت خدا، اطاعت رسول اور اطاعت اولی الامر کے تین مراتب بیان کیے گئے ہیں۔ اطاعت خدا سے مراد قرآن مجید کے احکام کی اطاعت ہے، اطاعت رسول سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل کی پیروی ہے اور اطاعت اولی الامر سے مراد مسلمانوں کے امرا اور ارباب حل و عقد کی اطاعت ہے‘ پہلے دونوں مراتب کے متعلق قرآن میں ایک جگہ نہیں بیسیوں جگہ اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ خدا اور رسول کے احکام میں کسی چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کاکام سننا اور اطاعت کرنا ہے۔ خدا اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مسلمان کو یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ وہ اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرے۔ رہا تیسرا مرتبہ تو اس کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت خدا اور رسول کے احکام کے تابع ہے، اور نزاع کی صورت میں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔ ایسے صاف اور کھلے ہوئے احکام کے موجود ہوتے ہوئے اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کہ خدا اور رسول سے مراد امارت لی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب امارت کو اس امارت کے ساتھ ملا دیا جائے جو مسلمانوں کے عام امرا کو حاصل ہے۔ اس معاملے میں قُلِ الْاَنْفالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ سے جواستدلال کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ اموال غنیمت خدا اور رسول کے لیے ہیں‘‘ کہنے کا مدعا یہ ہے کہ خدا اور رسول نے اسلامی جماعت کا جو نظام قائم کیا ہے اس کے مصالح میں یہ غنائم صرف کیے جائیں۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ اللہ اور رسول سے مراد امارت ہے۔
حدیث کے متعلق مؤلف کا مسلک
حدیث کے متعلق مؤلف نے قریب قریب وہی مسلک اختیار کیا ہے جو منکرین حدیث کے ایک بڑے گروہ کا مسلک ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تعلیم کتاب کا ایک شعبہ یہ بھی تھا کہ رسول اس کے احکام پر عمل کرکے دکھادے تاکہ امت اسی نمونے پر عامل ہو جائے۔‘‘
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الاحزاب21:33
تمھارے لیے رسول اللہ کے اندر اچھا نمونہ ہے۔
چنانچہ ہمارے رسولؐ نے جملہ احکام قرآنی مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، وغیرہ پر عمل کرکے دکھلا دیا اور مسلمان اسی نمونے پر عمل کرنے لگے۔ یہ اسوۂ حسنہ امت کے پاس عمل متواتر کی شکل میں موجود ہے، جس کے مطابق رسول اللہ کے عہد سے نسلاً بعد نسل وہ عمل کرتی چلی آتی ہے۔ اس لیے یہ یقینی اور دینی ہے۔ اس کی مخالفت خود قرآن کی مخالفت ہے‘‘۔
دوسری جگہ مؤلف نے لکھا ہے:
’’غیر یقینی شے کا دین میں کچھ دخل نہیں۔‘‘
ان عبارات اور مؤلف کی ان تصریحات سے جو اوپر بیان ہو چکی ہیں ان کا مسلک واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ:
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی فیصلے اور وہ قوانین جو آپ نے سیاسی‘ جنگی، اور تمدنی اور اجتماعی امور میں امیر قوم کی حیثیت سے نافذ کیے تھے، اس اسوۂ رسول کی تعریف سے خارج ہیں جس کی پیروی کا حکم عام قرآن میں دیا گیا ہے، لہٰذا ان کی اب ضرورت نہیں رہی، کیونکہ امارت کے فرائض ہنگامی ہیں اور زمانے کے ساتھ ساتھ ماحول بھی بدلتا رہتا ہے۔
(۲) صرف ان امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (نہ کہ قول) قابل تقلید ہے جو عبادات اور دینی اعمال سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی احکام پر عمل درآمد کرنے کی صورت خود اپنے عمل سے بتا دی ہے۔
(۳) مؤلف کے نزدیک صرف وہ عمل متواتر یقینی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے اب تک جاری ہے، اور جس کی پیروی ہر نسل اپنے سے پہلی نسل کو دیکھ کر کرتی رہی ہے۔ رہیں وہ روایات جو آنحضرت کے اقوال و اعمال کے متعلق احادیث میں وارد ہوئی ہیں، تو وہ یقینی نہیں ہیں اور دین میں ان کا کچھ دخل نہیں۔
ان میں سے پہلی دونوں باتوں کے متعلق میں قطعیت کے ساتھ کہتا ہوں کہ قرآن کے بالکل خلاف ہیں۔ قرآن میں کوئی خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بنا پر یہ حکم نکلتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محض مذہبی اعمال ہی دائماً قابل تقلید ہیں، رہے تمدنی و اجتماعی امور میں آپ کے فیصلے اور آپ کے نافذ کردہ قوانین، تو وہ صرف اس عہد کے لیے مخصوص تھے جس عہد میں وہ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں ہو جس کے ان دونوں قسم کے اعمال میں فرق کیا جاسکتا ہو اور دونوں کے احکام مختلف قرار دیئے جاسکتے ہوں تو اس کو پیش کیا جائے۔ مجھ کو تو قرآن میں صاف حکم یہ ملتا ہے کہ
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب36:33
کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر میں فیصلہ کر دے، تو ان کو اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی ہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔
اس آیت میں زمانے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ مومن اور مومنہ سے خاص عہد رسالت کے مومن مرد و عورت مراد نہیں لیے جاسکتے۔ اَمْرًا کا لفظ نہایت عام ہے جو ہر قسم کے معاملات پر حاوی ہے، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی۔ اللہ اور رسول سے مراد اللہ اور رسول ہی ہیں۔ ’’امارت‘‘ ہرگز نہیں ہے، کیونکہ امیر یا اولی الامر بہرحال مومن ہی ہوں گے، اور یہاں تمام مومنین و مومنات سے یہ حق سلب کرلیا گیا ہے کہ خدا اور رسول نے جس معاملے کا فیصلہ کردیا ہو اس میں انھیں مجتمعا یا منفرداً خود فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار باقی رہے۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ ’’جو اس کے خلاف عمل کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کی ہدایت سے اس کے رسول نے اپنے احکام اور اپنے قوانین سے اسلامی جماعت کا جو نظام قائم کردیا ہے، اس کا قیام منحصر ہی اس پر ہے کہ جو احکام جاری کر دیئے گئے ہیں اور جو قوانین نافذ کر دیئے گئے ہیں ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی جائے۔ اگر خدا اور اس کے رسول کی قولی اور عملی رہنمائی سے قطع نظر کرکے لوگ خود اپنی رائے اور اپنے اختیار سے کچھ طریقے اختیار کریں گے تو یہ نظام باقی نہ رہے گا اور اس نظام کے ٹوٹتے ہی تم راہ راست سے بھٹک کر بہت دُور نکل جائو گے۔ تعجب ہے کہ جس قرآن میں ایسی صاف اور صریح ہدایت موجود ہے اس کی تعلیمات لکھنے والے نے وہ مسلک اختیار کیا ہے جو آپ ابھی سن آئے ہیں۔
رہی تیسری بات، تو اس کے متعلق میں نے اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ اپنے مضمون ’’حدیث اور قرآن‘‘ میں بیان کیے ہیں۔ اس لیے یہاں ان کے دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ میں جناب مؤلف سے صرف یہ سوال کروں گا کہ اگر کوئی شخص ان تمام بدعات و خرافات کو جو آج مسلمانوں کی مذہبی زندگی میں رائج ہوگئی ہیں، وہ ’’یقینی عمل متواتر‘‘ قرار دے جو رسول اللہ کے عہد سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آرہا ہے، اور اس بنا پر انھیں داخل دین سمجھے، تو آپ کے پاس کون سا ایسا یقینی ذریعہ ہے جس سے آپ یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ یہ عمل رسول اللہ کا نہیں ہے بلکہ بعد کے لوگوں کی ایجاد ہے؟ آپ فرمائیں گے کہ ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے اور اس کی آیات سے ان بدعات کی تردید کریں گے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اوّل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے آیات قرآنی کے معانی کی جو تعیین ہوتی ہے اس کو نظر انداز کرنے کے بعد آیات کی تاویل میں ایک بدعت پسند انسان اتنی گنجائش نکال سکتا ہے کہ اس کی بہت سی بدعتوں کی تردید مشکل ہو جائے گی۔ دوسرے اگر آپ نے قرآن سے اس کی بدعات کی تردید کر بھی دی تو یہ اس کے اس دعویٰ کی تردید نہ ہوگی کہ یہ وہی یقینی عمل متواتر ہے جو رسول اللہ کے عہد سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آرہا ہے۔ آپ اپنے مسلک کے مطابق اس عمل کو غیر یقینی کہہ نہیں سکتے اور آپ تاریخ سے بھی (جو روایات کی طرح غیریقینی ہی ہونی چاہیے) یہ استدلال نہیں کرسکتے کہ یہ بدعات عہد رسالت میں نہ تھیں، بلکہ فلاں عہد میں جاری ہوئیں۔ اب صرف یہی صورت رہ جاتی ہے کہ آپ ان کو یقینی مان لیں، پھر یا تو ان کی پیروی کریں یا یہ فیصلہ کر دیں کہ عمل رسول تعلیم قرآن کے خلاف تھا۔ معلوم نہیں کہ فاضل مؤلف اور ان کے ہم خیال حضرات کے پاس اس پیچیدگی کا کیا حل ہے؟
(ترجمان القرآن۔ رجب ۱۳۵۴ھ۔ اکتوبر۱۹۳۴ئ)

شیئر کریں