Search
Close this search box.

مودوی سے جانیئے

ابراہیم علیہ السلام کی بعثت کے وقت ان کی قوم کی مذہبی و تمدنی حالت کیسی تھی

اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم ؑ کے ظہُور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُرکی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دُوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے ۔جِس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومت ِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے ۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطۂ نظر خالص مادّہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات تھا۔ سُود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دُوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دُعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی:


(۱) عَمیلو – یہ اُونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پُجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔

(۲) مِشکینو – یہ تجار، اہلِ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔


(۳) اَردو – یعنی غلام

تفہیم القرآن تفسیر سورة الانعام آیت 75