۱۔ ’’یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لیے محدث ہو کر آیاہے او رمحدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتاہے۔ گو اس کے لیے نبوت نامہ نہیں مگر تاہم جزئی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے …اور انبیا کی طرح اس پر فرض ہوتاہے کہ اپنے تئیں باآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہراتاہے۔ ‘‘
(توضیح مرام ، مرزا غلام احمد صاحب صفحہ ۱۸)
۲۔ ’’ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا ، ہاں ضال اور جادہ صواب سے منحرف ضرور ہوگا({ FR 6480 }) اور میں اس کانام بے ایمان نہیں رکھتا۔ (تریاق القلوب ، مرزا غلام احمد صاحب ،صفحہ ۱۳۰)
۳۔’’اور ہر ایک مسلمان جس کو میری تبلیغ کی گئی ہے ، گو وہ مسلمان ہے ،مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتاہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتاہے ، وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے۔ ‘‘ (تحفہ الندوہ، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۴)
۴۔’’جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا، یاماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ بھی حقیقت اسلام اور غایت نبوت اور غرض رسالت سے بے خبر محض ہے اور وہ اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور اس کے رسول کا سچا تابع دار اور فرماں بردار کہہ سکیں …اس کے نہ ماننے والوں اور اس سے انحراف کرنے والوں کانام فاسق رکھاہے۔ ‘‘
(حجۃ اللہ ، تقریر لاہوراز مرزا غلام احمد صاحب ، منقول از النبوۃ فی الاسلام مولوی محمد علی ایم اے ، ص ۲۱۴)
{({ FN 6480 }) یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے سے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدید لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں ، گو وہ جناب الٰہی میں کیسی ہی اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ، ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن سکتا۔}