ابتداء میں اہل مغرب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، اس لیے کہ نظریہ اصلاً غلط تھا۔ مالتھوس حساب لگا کر یہ تو دیکھ سکتا تھا کہ آبادی کس رفتار سے بڑھتی ہے، لیکن اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وسائل معاش کس رفتار سے بڑھتے ہیں اور زمین میں قدرت کے کتنے خزانے پوشیدہ ہیں جو علم کی ترقی، عقل کی کارفرمائی اور عمل کی قوت سے نکلتے چلے آئے ہیں اور انسان کے وسائل معاش میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا تصور معاشی ترقی کے ان امکانات تک پہنچ ہی نہ سکتا تھا جو اس کی نگاہ سے پوشیدہ تھے اور اس کے بعد قوت[Potential] سے فعل[Phenomenon] میں آئے۔ انیسویں صدی کے ربع آخر تک یورپ کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی، یہاں تک کہ75 سال کے اندر قریب قریب دوگنی ہو گئی۔ خصوصاً انگلستان کی آبادی میں تو حیرت انگیز اضافہ ہوا جس کی مثال نسل انسانی کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1779ء میں اس ملک کی آبادی12 ملین تھی۔ 1890ء میں 38 ملین تک پہنچ گئی۔ لیکن اس اضافہ کے ساتھ معاشی وسائل میں بھی زبردست ترقی ہوئی۔ صنعت وتجارت میں یہ ممالک تمام دنیا کے اجارہ دار بن گئے۔ ان کی زندگی کا انحصار خود اپنی زمین کی پیداوار پر نہ رہا بلکہ وہ اپنی مصنوعات کے معاوضہ میں دوسرے ممالک سے سامان غذا حاصل کرنے لگے اور نسل کی زبردست افزائش کے باوجود ان کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ زمین ان کی بڑھتی ہوئی نسلوں کے لیے تنگ ہو گئی ہے، یا قدرت کے خزانے ان کی افزائش نسل کا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔