یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک، کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کردیتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر، جس طرح یہاں انتقالِ اختیارات کا معاملہ طے ہوتا نظر آ رہا ہے اس سے یہ دھوکا نہ کھایا جائے کہ یہ قطعی فیصلہ ہے جو ملک کا انتظام، خود اہلِ ملک کے حوالے کیے جانے کے حق میں ہو رہا ہے۔ آپ شاید معاملے کی سادہ سی صورت سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آ کر حکومت کر رہے تھے، واپس جارہے ہیں، اس لیے اب یہ آپ سے آپ ہونا ہی چاہیے کہ ملک کا انتظام، خود ملکیوں کے ہاتھ آئے۔ نہیں! خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے۔ وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلاوجہ لایا تھا، نہ اب بلاوجہ لے جارہا ہے۔ نہ پہلے الل ٹپ، اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اب الل ٹپ، وہ اُسے آپ کے حوالے کر دے گا۔ دراصل اس وقت ہندستان کے باشندے، امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ سب امیدوار ہیں۔ چوں کہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں‘ اس لیے پہلا موقع انھی کو دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے، بلکہ محض امتحانی موقع ہے۔ اگر فی الواقع انھوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر، بنائو کی صلاحیتیں ہیں، تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا، ورنہ اپنے بنائو سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کرکے، یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انھیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے، کسی ایک کو اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا جائے گا۔ پھر اس فیصلے کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے، اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد، ان کا منہ کیا ہو گا کہ کوئی فریاد کریں۔ ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی، تو انھیں داد کون دے گا۔