Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

آزادی کا اسلامی تصوُّر

ایک صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’سورۂ احزاب میں حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کے سلسلے میں ایک اہم شبہ پیدا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید سے فرمایا اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ احزاب33:37 (اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اللہ سے ڈر)مگر حضرت زیدؓ نے اس حکم نبوی کی خلاف ورزی کی اور حضرت زینب کو طلاق دے دی۔ اس فعل کے خلافِ حکم ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں اور قرآن کے انداز بیان میں صراحتاًیا کنایتاًایسی کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زید کی اس سرتابی کو ادنیٰ درجہ بھی ناپسند کیا ہو، بلکہ بیان واقعہ کی ابتدا میں ان کا ذکر لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ احزاب33:37 (جس پر اللہ نے انعام کیا) کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی کے حکم کی خلاف ورزی بھی کی جاسکتی ہے اور نبی کا قول اگر ثابت بھی ہو جائے کہ نبی ہی کا قول ہے تب بھی وہ اس طرح واجب الاطاعت نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان واجب الاطاعت ہے۔‘‘
سوال میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ چند لفظوں میں شبہ کو رفع کیا جاسکتا تھا۔ لیکن دراصل شبہ جہاں سے پیدا ہوتا ہے وہاں متعدد غلط فہمیوں کا منبع ہے، اور ان غلط فہمیوں کا سلسلہ دُور تک پہنچا ہوا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس شبہ کو رفع کرنے کے ساتھ اس کی اصل اور اس کے فروع کی طرف بھی کچھ اشارات کر دیئے جائیں۔
قرآن حکیم تمام آسمانی کتابوں سے زیادہ صراحت کے ساتھ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ حاکم مطلق بجز اللہ کے اور کوئی نہیں،اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ۱؎صرف اسی کو یہ حق ہے کہ جیسا چاہے حکم دے، اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ مَا يُرِيْدُ۔۱؎ وہی ایک ایسا حاکم ہے جس کے احکام میں کسی چون و چرا کی گنجائش نہیںلَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ۔۲؎ اطاعت اس کی فرض ہے اور اس لیے فرض ہے کہ انسان اپنی عین خلقت کے لحاظ سے اس کا بندہ ہے اور دراصل صرف اسی کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ۔۳؎ اس کے سوا انسان کسی کا مخلوق ہے نہ بندہ نہ پروردہ، اس لیے دراصل کسی انسان پر کسی دوسرے انسان کی اطاعت فرض نہیں يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۔۴؎ کسی انسان کو نہ تو دوسرے انسان پر حاکمیت مطلقہ (Absolute authority)حاصل ہے اور نہ کسی انسان پر یہ واجب کیا گیا ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کے حکم کی اطاعت کرے محض اس بنا پر کہ وہ اس خاص شخص کا حکم ہے۔
قرآن کے نزول کا اصلی مقصد یہی ہے کہ انسان کی گردن سے غیر اللہ کی اطاعت کا قلادہ نکال دے اور اللہ یعنی مطاع حقیقی (Real sovereign)کا بندہ بنانے کے بعد اس کو رائے اور ضمیر کی پوری آزادی عطا کرے۔ چنانچہ انسانی غلامی کے خلاف سب سے بڑھ کر جس کتاب نے جہاد کیا ہے وہ قرآن ہی ہے۔ یہ کتاب کسی انسان کا یہ حق تسلیم نہیں کرتی کہ بطور خود اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام کیے ہوئے کو حرام سمجھا جائے اور اس کے حکم اور اس کی ممانعت کی اس طرح اطاعت کی جائے کہ گویا وہ اپنے محکوموں کے لیے بمنزلہ خدا ہے۔ اسی قسم کی اطاعت اور محکومی کو قرآن شرک کا ایک شعبہ قرار دیتا ہے اور جو لوگ اپنے علماء و مشائخ کو، پنڈتوں اور پروہتوں کو، اور دنیوی حاکموں کو ارباب من دُون اللہ (gode other than God)بنا لیتے ہیں، انھیں مشرک ٹھہراتا ہے۔ کیونکہ انسان جب کبھی کسی انسان کی ایسی اطاعت کرے گا، تو لا محالہ اس کی تہ میں الوہیت کا تصور اور عبودیت کا جذبہ ہی کار فرما ہوگا۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلے میں اپنے دل اور دماغ اور روح اور جسم کی آزادی سے کلیتاً دستبردار ہوتا ہی اس وقت ہے جب وہ اس کو یا تو خطا سے بری اور عیوب و نقائص سے پاک اور جزو کل کا عالم سمجھ لیتا ہے، یا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ذاتی حق کی بنا پر امرونہی کا مالک ہے اور اسے حکومت کا طبعی حق حاصل ہے، یا یہ گمان کرتا ہے کہ وہ دراصل نفع اور نقصان پہنچانے والا اور رزق دینے اور رزق روکنے والا ہے۔ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی کو ان صفات کا حامل سمجھنا ہی شرک اور غلامی کی جڑ ہے۔ اور توحید ____ جس کا لازمی نتیجہ آزادی ہے ____ یہ ہے کہ خدا کے سوا تمام چیزوں کو ان صفات سے خالی سمجھا جائے اور ان کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے۔
یہ مقدمہ ذہن نشین کرلینے کے بعد اب اس امر کی تحقیق کیجیے کہ نبی کی اطاعت جو اسلام میں فرض کی گئی ہے، اور جس پر دین کا مدار ہے، یہ کس حیثیت سے ہے۔ یہ اطاعت اس حیثیت سے ہرگز نہیں ہے کہ نبی وہ خاص شخص مثلاً ابن عمران یا ابن مریم، یا ابن عبداللہ ہے، اور یہ شخص خاص ہونے کی بنا پر اس کو حکم دینے اور منع کرنے کا، حلال کرنے اور حرام ٹھیرانے کا حق حاصل ہے۔ اگر ایسا ہو تو معاذ اللہ نبی خود بھی اربابٌ من دُون اللہ میں سے ایک ہو جائے گا، اور اس طرح خود اسی کے ہاتھوں وہ مقصد فوت ہو کر رہے گا جس کے لیے وہ نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ قرآن نے اس مسئلے کو نہایت واضح الفاظ میں صاف کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتی حیثیت میں تو نبی ویسا ہی ایک بشر ہے جیسے تم بشر ہو قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ہَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ۱؎ بنی اسرائیل17:93 قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۲؎ ابراہیم14:11 البتہ نبی ہونے کی حیثیت سے اس میں اور تم میں عظیم الشان فرق ہے۔اس کو خدا کی طرف سے جب نبوت عطا کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ’’حکم ‘‘ بھی عطا ہوتا ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ۳؎ الانعام6:89 ’’حکم‘‘ کے مفہوم میں قوت فیصلہ (Judgement) اور اقتدار حکومت (authority) دونوں شامل ہیں۔ پس نبی کو جو اقتدار حاصل ہے وہ ذاتی اقتدار نہیں بلکہ تفویض کردہ اقتدار ہے۔اس لیے اس کی اطاعت دراصل خدا ہی کی اطاعت ہے، مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۴؎ نساء4:80 وہ بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کے احکام نافذ کرے اور تم ان احکام کی اطاعت کرو،وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۔ ۱ ؎ النساء4:64 اس حیثیت میں اس کا حکم خدا کا حکم ہے اور کسی کو اس میں چون و چرا کرنے کا حق نہیں،وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۲؎ النساء4:115 عمل تو درکنار اگر دل میں بھی اس کی نافرمانی کا خیال آجائے تو قطعاً ایمان سلب ہو جاتا ہے، فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ۳؎ النساء4:65 اور اس نافرمانی کا نتیجہ ابدی خسران و نامرادی ہے، يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۔۴؎ النساء4:42
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا یہ اطاعت اور کامل سپردگی، جس پروین و ایمان کا مدار رکھا گیا ہے اور جس کے متعلق صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ہدایت سربسر نبی کی اطاعت پر منحصر ہے۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۔ النور24:54اس کا مرجع نبی کی انسانی اور شخصی حیثیت نہیں ہے۔ کسی نبی کو اللہ نے اس لیے بھیجا ہے کہ وہ ان کو خدا کا تابع فرمان بنائے، مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ۔۵؎ آل عمران3:79 وہ اس لیے نہیں آیا کہ لوگوں کو اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی پر مجبور کرے، اپنی شخصی عظمت و بزرگی کا سکہ ان پر جمائے اور ان کو اپنے شخصی اقتدار کے شکنجے میں کس کر اس قدر بے بس کر دے کہ وہ اس کی رائے کے مقابلے میں خود کوئی رائے دیکھنے کے حق سے بالکل دستبردار ہو جائیں اور اپنے دل و دماغ کو اس کے سامنے معطل کر دیں۔ یہ تو وہی غیر اللہ کی بندگی ہوئی جس کو مٹانے کے لیے نبی بھیجا جاتا ہے۔ انسان کی گردن میں جتنے طوق انسان نے ڈالے ہیں ان سب کو کاٹ دینا ہی تو نبی کی بعثت کا مقصود ہے، وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ ۱؎ اعراف7:157 انسان نے انسان کے لیے فرائض اور حقوق مقرر کرنے اور جائز و ناجائز کی من مانی حدیں ٹھہرانے کے جن اختیارات پر قبضہ کر رکھا تھا ان کو سلب کرنے ہی کے لیے تو نبی مامور کیا جاتا ہے۔ وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ۲؎ النحل16:116 انسانی حکم اور فیصلے کے سامنے سر جھکانے کی جو ذلت انسان نے اختیار کرلی تھی اس سے نجات دلانے ہی کے لیے تو نبوت قائم کی جاتی ہے، وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۔۳؎ آل عمران3:64 پھر کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ نبی ان کی گردنوں سے دوسروں سے چھین کر خود اپنے قبضے میں کر لے اور استبداد کی مسند سے دوسروں کو ہٹا کر خود اس پر متمکن ہو جائے۔ اس نے تو یہود و نصاریٰ کو اسی پر ملامت کی تھی کہ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۴؎ التوبہ9:31 پھر وہ کیسے کہتا کہ اب تم خدا کو چھوڑ کر مجھ کو رب بنا لو اور میری خواہشات نفس کی پابندی کرو۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے بار بار اس حقیقت کا اظہار کراتا ہے کہ وہ اطاعت جو مومن پر فرض کی گئی ہے، جو اصل ایمان ہے، اور جس سے کسی مومن کو سرتابی کیا معنی یک سرمُوانحراف کا بھی حق نہیں، وہ دراصل نبی بحیثیت انسان کی اطاعت نہیں ہے بلکہ نبی بحیثیت نبی کی اطاعت ہے۔ یعنی اس علم، اس ہدایت، اس حکم اور اس قانون کی اطاعت جسے اللہ کا نبی اللہ کی طرف سے اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ پس درحقیقت اسلام جس اطاعت کی بندش میں انسان کو باندھتا ہے، وہ دراصل انسان کی اطاعت نہیں بلکہ خدا کی اطاعت ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ النساء4:105
اے نبی ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس حق کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تم کو دکھایا ہے۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ المائدہ5:45
اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل ظالم ہیں۔
اس آیت میں جس طرح دوسرے انسان بندھے ہوئے ہیں اسی طرح خود نبی بحیثیت انسان بھی بندھا ہوا ہے:
اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ الانعام6:50
میں تو صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔
یہ اور ایسی ہی بہت سی آیات اس امر پر واضح دلالت کرتی ہیں کہ اطاعت دراصل صرف حق تعالیٰ شانہ کی ہے، اور اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ غیر اللہ کی بندگی اور انسان پر انسان کی خداوندی کا قلع قمع کردے۔ اسلام میں کسی انسان کی اطاعت بحیثیت انسان ہونے کے نہیں ہے۔ نبی کی اطاعت ہے تو اس بنا پر ہے کہ اللہ کی طرف سے اس کو ’’حکم‘‘ عطا کیا گیا ہے۔ حکام کی اطاعت ہے تو اس بنا پر کہ وہ اللہ اور رسول کے احکام کو نافذ کرنے والے ہیں۔ علماء کی اطاعت ہے تو اس بنا پر کہ وہ خدا اور رسو ل کے امرونہی اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا حکم پیش کرے تو مسلمان پر واجب ہے کہ اس کے آگے سر جھکا دے۔ وہ اس میں ہرگز چون و چرا کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کو خدا کے مقابلے میں کوئی حریت فکر اور آزادیٔ رائے حاصل نہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان خدا کا نہیں، خود اپنا کوئی خیال پیش کرے، تو مسلمان پر اس کی اطاعت فرض نہیں۔ وہ آزادی کے ساتھ خود سوچنے اور رائے قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس کو آزادانہ اتفاق کرنے کا بھی اختیار ہے اور آزادانہ اختلاف کرنے کا بھی۔ اس معاملے میں علما اور حکام تو درکنار، خود نبی کی ذاتی رائے سے بھی اختلاف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا ایک حصہ یہ تھا کہ خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا قلادہ انسان کی گردن میں ڈال دیں۔ اور دوسرا حصہ یہ تھا کہ انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کا قلادہ اس کی گردن سے اتار پھینکیں۔ یہ دونوں کام آپ کے مقصد بعثت میں شامل تھے اور دونوں کی اہمیت یکساں تھی۔ پہلے کام کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ نبی ہونے کی حیثیت سے آپ تمام مسلمانوں کو اپنی کامل اور غیر مشروط اطاعت پر مجبور کریں۔ کیونکہ آپ کی اطاعت ہی پر خدا کی اطاعت موقوف تھی۔ اس کے مقابلے میں دوسرے کام کی تکمیل کے لیے یہ بھی اتنا ہی ضروری تھا کہ سب سے پہلے آپ خود اپنے عمل اور اپنے برتائو سے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کر دیں کہ کسی انسان کی، حتیٰ کہ خود محمد بن عبداللہ بحیثیت انسان کی اطاعت بھی ان پر واجب نہیں ہے اور ان کی روحیں انسان کی بندگی سے قطعی آزاد ہیں۔ یہ دراصل ایک نہایت نازک کام تھا۔ ایک ہی ذات میں حیثیت نبوت اور حیثیت بشریت دونوں جمع تھیں اور ان کو کسی واضح خط امتیاز کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر اللہ کے رسول پاک نے اللہ کی بخشی ہوئی حکمت سے اس کام کو بہترین طریق پر انجام دیا۔ آپ نے ایک طرف نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی ایسی اطاعت کرائی کہ تاریخ عالم میں کبھی کسی امیر کی ایسی اطاعت نہیں کی گئی۔ اور دوسری طرف انسان ہونے کی حیثیت سے آپ نے اپنے جاں نثار متبعین کو ایسی آزادیٔ رائے عطا کی کہ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے جمہوریت پسند سردار نے بھی اپنے ماتحتوں کو ایسی آزادی نہیں بخشی۔ اگر کوئی شخص اس امر پر غور کرے کہ نبی ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنے پیرووں پر کتنا بڑا اقتدار حاصل تھا اور مسلمان کتنی گہری عقیدت آپ کے ساتھ رکھتے تھے اور پھر یہ دیکھیے کہ اتنا زبردست اقتدار رکھنے کے باوجود آپ کس طرح معاشرت اور معاملات میں ہمیشہ اور ہر وقت اپنی پیغمبرانہ حیثیت اور انسانی حیثیت کو الگ الگ رکھتے تھے، اور پیغمبرانہ حیثیت میں اپنی بے چون و چرا اطاعت کرانے کے ساتھ انسانی حیثیت میں لوگوں کو کتنی مکمل آزادیٔ رائے عطا فرماتے اور خود اپنی ذاتی آراء سے اختلاف کرنے میں کس طرح ان کی ہمت افزائی کرتے تھے، تو اسے ماننا پڑے گا کہ یہ کمال درجے کا ضبط نفس، یہ حیرت انگیز قوت امتیاز اور ایسی مکمل بصیرت صرف ایک نبی ہی کو میسر آسکتی ہے۔ اس مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی کی شخصی حیثیت الگ ہونے کے باوجود اس کی پیغمبرانہ حیثیت میں گم ہو جاتی ہے۔ نبی اپنی شخصی حیثیت میں بھی پیغمبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔ وہ جب اپنی شخصی حیثیت میں کام کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے پیرووں میں آزادیٔ فکر کی رُوح پھونکتا ہے، صحیح جمہوری اصولوں پر ان کی تربیت کرتا ہے، انھیں سکھاتا ہے کہ انسان کے مقابلے میں ان کو کس طرح آزادیٔ رائے استعمال کرنی چاہیے، اور انھیں بتاتا ہے کہ آزادیٔ رائے کا حق ان کو ہر انسان کے مقابلے میں حاصل ہے حتیٰ کہ اس انسان کامل، اس عظیم الشان شخصیت کے مقابلے میں بھی وہ رائے کی پوری آزادی رکھتے ہیں جس کو وہ خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے بلند ترین اقتدار کا درجہ دینے پر مجبور ہیں۔ نبی کے سوا کسی دوسرے کو لوگوں پر ایسا مکمل اقتدار نصیب ہو تو وہ ضرور ان کو اپنا بندہ بنالے اور ان پر اپنے وہی حقوق جمائے جو دنیا میں پیروں اور پنڈتوں اور بادشاہوں نے جما کر دکھا دیئے۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ:
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِّنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِّنْ رَأْیٖیَ فَاِنَّماَ اَنَا بَشَرٌ۔
میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔ جب میں تم کو تمھارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسے مانو۔ اور جب میں اپنی رائے سے کچھ کہوں تو بس میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔
ایک مرتبہ حضور نے مدینے کے باغبانوں کو کھجور کی کاشت کے متعلق ایک مشورہ دیا۔ لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر وہ مفید ثابت نہ ہوا۔ آپؐ سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو جواب میں آپؐ نے فرمایا:
اِنّیْ اِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنّاً وَلَا تُوأخِذُوْنِیْ بِالظَّنِّ ولٰکَنْ اِذَا حَدَثْتُکُمْ عَنِ اللّٰہِ شَیْئًا فَخُذُوْابِہٖ فَاِنِّیْ لَمْ اَکْذِبْ عَلَی اللّٰہِ۔
میں نے تو اندازے سے ایک بات کہی تھی۔ تم میری ان باتوں کو نہ لو جو گمان اور رائے پر مبنی ہوں۔ ہاں جب میں خدا کی طرف سے کچھ بیان کروں تو اس کو لے لو کیونکہ مَیں نے خدا پر کبھی جھوٹ نہیں باندھا۔
جنگ بدر کے موقع پر حضورؐ ابتدا میں جہاں خیمہ زن ہوئے تھے وہ جگہ مناسب نہ تھی۔ حضرت حباب بن منذر نے آپ سے دریافت کیا کہ اس مقام کا انتخاب وحی کے ذریعے سے کیا گیا ہے یا محض ایک تدبیر جنگ کے طور پر ہے؟ فرمایا وحی نہیں ہے۔ انھوں نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہے تو میری رائے میں آگے بڑھ کر فلاں مقام پر خیمہ زن ہونا چاہیے۔ حضورؐ نے ان کی رائے کو قبول فرمایا اور اسی پر عمل کیا۔
اسیران بدر کے مسئلے میں حضورؐ نے صحابہ کی جماعت سے مشورہ لیا اور خود بھی ایک عام رُکن جماعت کی حیثیت سے رائے دی۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے آپؐ کی اور صدیق اکبرؓ کی رائے سے بے تکلف اختلاف کیا جس کا واقعہ تمام تاریخوں میں مشہور ہے۔ اسی مجلس میں حضورؐ نے خود اپنے داماد ابوالعاص کا مسئلہ بھی پیش کیا اور صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمھاری مرضی ہے تو ان سے فدیے میں جو ہار لیا گیا ہے وہ انھیں واپس کر دیا جائے۔ جب صحابہ نے بخوشی اس کی اجازت دی تب آپ نے ہار انھیں واپس کیا۔
غزوۂ خندق کے موقع پر حضورؐ نے بنی غطفان سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا۔ انصار کے سرداروں نے عرض کیا کہ اگر یہ ارادہ وحی کی بنا پر ہے تو مجال کلام نہیں اور اگر حضورؐ اپنی رائے سے ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس تجویز سے اختلاف ہے۔ حضورؐ نے انھی کی رائے قبول فرمائی اور اپنے ہاتھ سے صلح نامے کا مسودہ چاک کر ڈالا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام مسلمانوں کو بظاہر دب کر صلح کرنا پسند نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے علانیہ اس سے اختلاف کیا۔ مگر جب حضورؐ نے فرمایا کہ یہ کام میں خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے کر رہا ہوں تو باوجودیکہ غیرت اسلامی کی بنا پر سب ملول تھے، کسی نے دم مارنے کی جرأت نہ کی۔ حضرت عمرؓ مرتے دم تک اس غلطی کے کفارے طرح طرح سے ادا کرتے رہے کہ وہ ایک ایسے امر میں حضورؐ سے اختلاف کر بیٹھے جو بحیثیت رسول کیا جارہا تھا۔
جنگ حنین کے موقع پر تقسیم غنائم میں آپ نے مؤلفۃ القلوب کے ساتھ جو فیاضی ظاہر فرمائی تھی اس پر انصار چیں بجبیں ہوئے۔ حضورؐ نے ان کو بلایا۔ اپنے فعل کی تائید میں یہ نہیں فرمایا کہ میں خدا کا نبی ہوں جو چاہوں کروں، بلکہ ایک تقریر کی جس طرح ایک جمہوری حکومت کا سردار اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کے سامنے کرتا ہے۔ ان کے ایمان بالرسالت سے اپیل نہیں کی بلکہ ان کی عقل اور ان کے جذبات سے اپیل کی اور انھیں مطمئن کرکے واپس فرمایا۔
یہ تو خیر ان لوگوں کے ساتھ معاملہ تھا جو سوسائٹی میں بڑی اونچی پوزیشن رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں اور لونڈیوں تک میں استقلال رائے کی روح پھونک دی تھی۔ بریرہ ایک لونڈی تھی جو اپنے شوہر سے متنفر ہوگئی تھی۔ مگر شوہر اس کا عاشق زار تھا۔ وہ اس کے پیچھے روتا پھرتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ تو اپنے شوہر سے رجوع کرلیتی تو اچھا تھا۔ اس نے پوچھا ’’یارسول اللہ کیا آپ حکم دیتے ہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا’’حکم نہیں بلکہ سفارش کرتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا ’’اگر یہ سفارش ہے تو میں اس کے پاس جانا نہیں چاہتی۔‘‘
اس قسم کی اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب قرینے سے یا خود حضورؐ کی تصریح سے لوگوں کو یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ آپ کوئی بات اپنی رائے سے فرما رہے ہیں تو وہ آزادی کے ساتھ اس میں اظہار رائے کرتے تھے اور آپ خود اس آزادانہ اظہار رائے میں ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ ایسے موقع پر اختلاف کرنا نہ صرف جائز تھا، بلکہ آپ کے نزدیک پسندیدہ تھا، اور آپ خود بسا اوقات اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے تھے۔
اب حضرت زید کے واقعہ کی طرف رجوع کیجیے۔ حضورؐ کے ساتھ ان کے تعلقات کئی طرح کے تھے۔ ایک تعلق یہ تھا کہ آپ ان کے پیشوا تھے اوروہ آپ کے پیرو تھے۔ دوسرا تعلق یہ تھا کہ آپ ان کے برادرِ نسبتی تھے اور وہ آپ کے بہنوئی تھے۔ تیسرا تعلق یہ تھا کہ آپ ان کے مُربی تھے اور وہ آپ کے پروردہ تھے۔ بیوی سے ان کا نباہ نہ ہوسکا۔ انھوں نے طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ آپ نے ان کو وہی مشورہ دیا جو ہر برادر نسبتی اپنے بہنوئی کو اور ہر سر پرست اپنے پروردہ کو دے گا، یعنی یہ کہ خدا کا خوف کرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو۔ مگر جس اختلاف مزاج کی بنا پر زوجین میں باہم نفرت پیدا ہوگئی تھی اس کو حضرت زید خود زیادہ محسوس کرسکتے تھے۔ یہ معاملہ ان کے دین و ایمان کا نہیں بلکہ ان کے حسیات نفس کا تھا۔ اس لیے انھوں نے حضورؐ کے مشورے کو قبول نہ کیا اور طلاق دے دی۔ یہ خلاف ورزی رسول کے مقابلے میں نہ تھی، نہ حضورؐ نے جو مشورہ دیا تھا وہ رسول خدا کی حیثیت سے تھا، اس لیے نہ آپ ناراض ہوئے نہ خدا ناراض ہوا۔ اگر حضورؐ کی جگہ کوئی اور ایسا شخص ہوتا جس نے کسی کو بچپن سے پالا ہو اور اس پر احسانات کیے ہوں اور آخر میں غلامی سے داغدار ہونے کے باوجود اپنی بہن کی شادی اس سے کی ہو، اور پھر اس نے باوجود منع کرنے کے اس کی بہن کو طلاق دے دی ہو، تو وہ ضرور ناراض ہوتا۔ مگر حضورؐ صرف مربی اور برادر نسبتی ہی نہ تھے بلکہ رسول خدا بھی تھے اور رسول ہونے کی حیثیت سے یہ بھی آپ کا فرض تھا کہ انسان کو انسان کی بندگی سے آزاد کریں اور انسان کو انسان کے مقابلے میں آزادی کا کھویا ہوا حق واپس دلوائیں۔ اس لیے آپ نے حکم نہیں بلکہ مشورہ دیا اور اس مشورے کے خلاف عمل کرنے پر قطعاً کسی ناراضی کا اظہار نہ فرمایا۔ اسی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کی ذات میں حیثیت نبوی اور حیثیت بشری الگ الگ بھی تھیں اور باہم پیوستہ بھی تھیں۔ آپ نے ان دونوں کے استعمال میں ایسا حیرت انگیز توازن قائم کیا تھا کہ ایک نبی ہی ایسے توازن پر قادر ہوسکتا ہے۔ حیثیت بشری میں بھی آپ اس طرح عمل فرماتے تھے کہ نبوت کے فرائض اس کے ضمن میں ادا ہوتے رہتے تھے۔
سرکارِ رسالت مآب نے جس حریت فکر کی تخم ریزی کی تھی، اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ انسان کے مقابلے میں آزادیٔ رائے استعمال کرنے کا جو سبق اپنے متبعین کو خود اپنے عمل اور اپنے برتائو سے سکھایا تھا، اسی کا یہ اثر تھا کہ صحابۂ کرام تمام انسانوں سے زیادہ احکامِ الٰہی کے اطاعت کیش اور تمام انسانوں سے زیادہ آزاد خیال و جمہوریت پسند تھے۔ وہ بڑے سے بڑے شخص کے مقابلے میں بھی اپنی رائے کی آزادی کو قربان نہ کرتے تھے۔ ان کی ذہنیت سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ کسی رائے کو محض اس بنا پر تنقید سے بالا تر سمجھیں کہ وہ فلاں بڑے آدمی کی رائے ہے۔ ان میں سے جو بڑے آدمی تھے، جن کی بڑائی کو وہ خود تسلیم کرتے تھے اور جن کی بڑائی آج ایک دنیا تسلیم کر رہی ہے، ان کی رائے کو بھی انھوں نے محض ان کی بڑائی کی بنا پر قبول نہ کیا بلکہ آزادی کے ساتھ رد بھی کیا اور قبول بھی کیا۔ خلفائے راشدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ اس آزادیٔ رائے کے حامی تھے۔ انھوں نے اپنے آقا کی پیروی میں لوگوں کی آزادی کو نہ صرف گوارا کیا بلکہ اس کی ہمت افزائی کی اور کبھی کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی سے بھی یہ مطالبہ نہ کیا کہ ہم بڑے آدمی ہیں اس لیے ہماری بات بے چون و چرا تسلیم کرو۔
خلفائے راشدین کے بعد بنی امیہ اور بنی عباس نے حریت فکر کو خوف اور طمع دلا کر ظلم و ستم اور زرپاشی کی طاقتوں سے ہر طرح کچلنے کی کوشش کی، مگر تابعین اور تبع تابعین میں اور ان کے بعد بھی ایک مدت تک مسلمانوں میں یہ روح باقی رہی۔ ابتدائی دو تین صدیوں تک آپ کو تاریخ اسلامی میں اس کے نہایت روشن نشانات نظر آئیں گے۔ امراء اور حکام کے مقابلے میں آزادی تو نسبتاً ایک چھوٹی چیز ہے۔ رُوح اور دماغ کی آزادی کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ انسان جس کو مقدس سمجھے، جس کی عزت و عظمت اس کے پہنائے قلب میں جاگزین ہو، اس کی اندھی تقلید سے انکار کر دے، اور اس کے مقابلے میں آزادی کے ساتھ سوچے اور آزادی کے ساتھ رائے قائم کرے۔ یہی سپرٹ ہم کو اس دَور کے اہل علم میں نظر آتی ہے۔ صحابۂ کرام سے بڑھ کر مقدس ہستیاں اور کون ہوں گی؟ اور حضرت تابعین سے بڑھ کر کس کے دل میں ان کا احترام ہوگا؟ مگر یہ لوگ آزادی کے ساتھ صحابۂ کرام کی آراء پر نقد کرتے تھے، ان کے اختلافات میں محاکمہ کرتے تھے، اور ایک کی رائے کو چھوڑ کر دوسرے کی رائے قبول کرتے تھے۔ اختلاف صحابہؓ میں امام مالکؒ کس صفائی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ خَطَائٌ وَصَوَابٌ فَانْظُرْفِیْ ذَالِکَ ’’صحابہ کی آراء میں خطاء بھی ہے اور صواب بھی۔ تم خود غور کرکے رائے قائم کرو۔‘‘ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کا ارشاد ہے: اَحَدُ الْقَوْلَیْنِ خَطَائٌ وَالْمَأْ ثِمْ فِیْہِ مَوْضُوْعٌ ’’دو مختلف اقوال میں سے ایک بہرحال غلط ہوگا۔‘‘
خود ان بزرگوں میں سے بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم خطا سے بری ہیں، اور تم اپنی فکر و نظر کو بالکل معطل کرکے صرف ہماری رائے کی پیروی کرو۔ سیدنا ابوبکرؓ صدیق جب کسی مسئلے میں اپنی رائے سے کچھ فرماتے تو ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے کہ ھٰذَا رَأَیِیْ فَانِ یَّکُنْ صَوَاباً فَمِنَ اللّٰہِ وَانْ یَّکُنْ خَطَائً فَمِنِّیْ وَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ۔ ’’یہ میری رائے ہے، اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے، اگر غلط ہے تو میری خطا ہے اور میں خدا سے مغفرت چاہتا ہوں‘‘
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں لَا تَجْعَلُوْا خَطَائَ الرَّاْیِ سَنَّۃً لِلّاْمُۃَّ۔’’رائے کی غلطی کو امت کے لیے سنت نہ بنالو۔‘‘
حضرت ابن مسعودؓ کا قول ہے اَلاَ یُقَلِّدَنَّ اَحَدُ کُمْ دِیِنْہٗ رُجَلاًاِنْ اٰمَنَ اٰمَنَ وَاِنْ کَفَرَ کَفَرَفَاِنَّہٗ لَااُسْوۃَ فِی الشَّرِّ۔ ’’خبردار کوئی شخص اپنے دین کے معاملے میں کسی دوسرے شخص کی اندھی تقلید نہ کرے کہ وہ مومن ہوا تو یہ بھی مومن رہا اور وہ کافر ہوا تو یہ بھی کافر ہوگیا۔ برائی اور غلطی میں کسی کی پیروی نہیں ہے۔‘‘
امام مالکؒ فرماتے ہیں اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌاُ خْطِیْ وَاُصِیْبُ فَانْظُرُوْا فِیْ رَأیْ فُکُلَّمَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَۃَ فَخُذُوْہُ وَ کُلَّماَ لَمْ یُوَافِقِ الْکِتَابَ وُالسُّنَّۃَ فَاتْرُکُوْہُ۔ میں ایک انسان ہوں۔ میری رائے غلط بھی ہوتی ہے اور درست بھی۔ تم میری رائے پر غور کرو۔ جو کچھ کتاب و سنت کے موافق پائو اسے قبول کرو اور جو بات خلاف دیکھو اسے چھوڑ دو۔‘‘ امام مالکؒ ہی کا یہ واقعہ تاریخوں میں موجود ہے کہ خلیفہ منصور عباسی ان کی کتاب المؤطا کو تمام عالم اسلامی کا دستور العمل بنانا چاہتا تھا اور اس کا خیال یہ تھا کہ تمام مذاہب فقہیہ کو موقوف کرکے صرف مذہب مالکی کو رائج کر دے۔ مگر امام صاحب نے خود اس کو ایسا کرنے سے روک دیا کیونکہ وہ دوسروں سے تحقیق و آزادیٔ رائے اور اجتہاد کا حق سلب کرنا نہیں چاہتے تھے۔
امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں لَایَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّقُوْلَ مُقَالَتَنَا حَتّٰی یَعْلَمَ مِنْ اَیْنَ قُلْنَا۔ ’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ ہمارے قول کا قائل ہو تاوقتیکہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے۔‘‘
امام شافعیؒ فرماتے ہیں: مَثَلُ الَّذِیْ یَطْلُبُ الْعِلْمَ بِلاَ حُجَّۃٍ کَمَثَلِ حَاطِبِ لَیْلٍ یَحْمِلُ خِرْمَۃَ حَطَبٍ وَفِیْہِ اَفْعِیٌّ تَلْدَغُہٗ وَھُوَ لَایَدْرِیْ۔ ’’جو شخص دلیل کے بغیر علم حاصل کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی جو رات کو لکڑیاں چن رہا ہو۔ وہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھاتا ہے اور اس کی خبر نہیں کہ اس گٹھے میں کہیں سانپ بھی چھپا ہوا ہے جو اسے ڈس لے گا۔‘‘
تقریباً تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد اور حریت فکر و نظر اور آزادانہ طلب حق کی وہ اسپرٹ مسلمانوں میں پوری شان کے ساتھ باقی رہی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین میں پیدا کر گئے تھے۔ اس کے بعد امرا و حکام اور علما و مشائخ کے استبداد نے اس روح کو کھانا شروع کر دیا۔ سوچنے والے دماغوں سے سوچنے کا حق اور دیکھنے والی ٓنکھوں سے دیکھنے کا حق اور بولنے والی زبانوں سے بولنے کا حق سلب کر لیا گیا۔ درباروں سے لے کر مدرسوں اور خانقاہوں تک ہر جگہ مسلمانوں کو غلامی کی باقاعدہ تربیت دی جانے لگی، دل اور دماغ، روح اور جسم کی غلامی ان پر پوری طرح مسلط ہوگئی۔ دربار والوں نے اپنے سامنے رکوع اور سجدے کرا کے غلامانہ ذہنیت پیدا کی، مدرسے والوں نے خدا پرستی کے ساتھ اکابر پرستی کا زہر دماغوں میں اتارا۔ خانقاہ والوں نے ’’بیعت‘‘ کے مسنون طریقے کو مسخ کرکے مقدس غلامی کا وہ طوق مسلمانوں کی گردنوں میں ڈالا جس سے زیادہ سخت اور بھاری طوق انسان نے انسان کے لیے کبھی ایجاد نہ کیا ہوگا۔ جب غیر اللہ کے سامنے زمین تک سر جھکنے لگیں، جب غیر اللہ کے آگے نماز کی طرح ہاتھ باندھے جانے لگیں، جب انسان کے سامنے نظر اٹھا کر دیکھنا سوئِ ادبی ہو جائے، جب انسان کے ہاتھ اور پائوں چومے جانے لگیں، جب انسان انسان کا خداوند اور اَن داتا بن جائے، جب انسان بذات خود امر و نہی کا مختار اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی سند سے بے نیاز قرار دیا جائے، جب انسان خطا سے پاک اور نقص سے بری اور عیب سے منزہ سمجھ لیا جائے، جب انسان کا حکم اور اس کی رائے اعتقاداً نہ سہی عملاً اسی طرح واجب الاطاعت قرار دے لی جائے جس طرح خدا کا حکم واجب الاطاعت ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اس دعوت سے منہ موڑ لیے گئے جو اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ آل عمران3:64 کے الفاظ میں دی گئی تھی۔ اس کے بعد کوئی علمی، اخلاقی، روحانی ترقی ممکن ہی نہیں، پستی اور زوال اس کا لازمی نتیجہ ہے۔
(ترجمان القرآن، رمضان ۱۳۵۵ھ، دسمبر ۱۹۳۶ئ)

شیئر کریں