غیر مسلموں کو اس ریاست میں تحریر و تقریر اور رائے و ضمیر اور اجتماع کی وہی آزادی حاصل ہو گی جو خود مسلمانوں کو حاصل ہو گی‘ اور اس معاملہ میں جو قانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہونگی وہی ان کے لیے بھی ہوں گی۔
قانون کی حدود میں رہتے ہوئے وہ حکومت پر‘ اس کے حکام پر اور خود رئیس حکومت پر آزادانہ تنقید کر سکیں گے۔
انہیں اسلام پر بھی تنقید کا اتنا ہی حق حاصل ہو گا جتنا مسلمانوں کو ان کے مذہب پر تنقید کا اس تنقید میں مسلمانوں کو بھی اُسی طرح قانون کا پابند رہنا ہو گا اور اگر ایک غیر اسلامی مذہب کا پیروکسی دوسرے غیر اسلامی مذہب کو قبول کر لے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ البتہ کوئی مسلمان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوئے اپنا دین بدلنے کا مجاز نہ ہو گا۔ لیکن ارتداد کی صورت میں مواخدہ جو کچھ بھی ہو گا، خود مرتد سے ہو گا، نہ کہ اس غیر مسلم سے جس کا اثر قبول کر کے وہ مرتد ہوا ہے۔
انہیں اپنے ضمیر کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا، اور اپنے ضمیر کے مطابق وہ ایسے سب کام کرنے کے مجاز ہوں گے جو قانونِ ملکی سے متصادم نہ ہوتے ہوں۔