آزادیٔ اظہار کے عین منطقی نتیجے کے طور پر آزادیِ اجتماع کا حق نمودار ہوتا ہے۔ جب اختلاف آرا کو انسانی زندگی کی ایک اٹل حقیقت کے طور پر قرآن نے بار بار پیش کیا ہے تو پھر اس امر کی روک تھام کہاں ممکن ہے کہ ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگ آپس میں مربوط ہوں۔ ایک اصول اور نظرئیے پر مجتمع ہونے والی ملت کے اندر بھی مختلف مدارسِ فکر ہو سکتے ہیں اوران کے متوسلین بہرحال باہم دگر قریب تر ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ[آل عمران3:104]
اور تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو بھلائی کی طرف بلائیں‘ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔
عملی زندگی میں جب ’’خیر‘‘ ’’معروف‘‘ اور ’’منکر‘‘ کے تفصیلی تصورات میں فرق واقع ہوتا ہے تو ملّت کی اصولی وحدت کے قائم رہتے ہوئے بھی اس کے اندر مختلف مدارسِ فکر تشکیل پاتے ہیں اور… یہ بات معیارِ مطلوب سے کتنی بھی فروتر ہو، گروہوں اور پارٹیوں کا ظہور ہوتا ہی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں کلام میں بھی، فقہ وقانون میں بھی اور سیاسی نظریات میں بھی اختلافِ آرا ہوا اور اس کے ساتھ مختلف گروہ وجود میں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دستور اور منشورِ حقوق کے لحاظ سے کیا مختلف اختلافی آرا رکھنے والوں کے لیے آزادیِ اجتماع کا حق ہے؟ یہ سوال سب سے پہلے حضرت علیؓ کے سامنے خوارج کے ظہور پر پیش آیا اور آں جنابؐ نے ان کے لیے آزادیٔ اجتماع کے حق کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے خارجیوں سے فرمایا۔ ’’جب تک تم تلوار اٹھا کر زبردستی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلّط کرنے کی کوشش نہ کرو گے، تمھیں پوری آزادی حاصل رہے گی۔‘‘