اصلاح کرنے والے عناصر
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:۱۔ خدا
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:۱۔ خدا
انسانی زندگی میں بگاڑ، جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے، اُنھیں ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں:۱۔ خدا سے بے
اِصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنائو اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود
اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمی کی وجہ یہی ہے کہ
اس تاریکی میں، ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے،
اس مرحلے پر آپ کے دل میں، یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے
مَیں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ مَیں نہ
حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق، اس ملک کی قسمت کا نظام انتظام درپیش ہے،
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط
اخلاقی تنزل کی یہ وبا، جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، اپنی لپیٹ میں لے چکی، تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے
اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندستان کے لوگ: ہندو، مسلمان، سکھ____اس امتحان کے موقع پر، اپنے خدا کے سامنے، اپنی کیا صلاحیتیں
یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک، کسی
اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے، وہ بنا چکے ہیں۔ اُن کے بنائو کے حساب میں، اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو
جب اُن کی حالت یہ ہو گئی تو خدا نے اُن کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندستان کے انتظام کا منصب، پھر
یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ، اسلام قبول
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دُو رکیوں
یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق، دُنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی
اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر، انسانوں کے نقطۂ نظر سے، اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں، ایک باغ کے مالک
یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اِسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی
پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک اُن کا بنائو، ان کے بگاڑ سے زیادہ
مالک ہونے کی حیثیت سے، اس کی خواہش یہ ہے کہ اُس کی دُنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے، اُسے زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے،
حاضرین و حاضرات! یہ دُنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اِس زمین کا فرش بچھا کر اِس پر انسانوں کو بسایا ہے، وہ
تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، بُرے اور بھلے کی تمیز بخشی،
زیرِ نظر کتابچے میں چند تراکیب اور کچھ مشکل الفاظ کی تفہیم کے لیے حاشیے میں، ان پر نوٹ لکھا گیا ہے۔ یا کھڑے بریکٹ
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ ۲۱ ویں صدی میں متکلمِ اسلام کے طور پر نمودار ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اسلام کی حقانیت
Crafted With by Designkaar