اعتراض: آپ نے تو یہاں تک دردیدہ دہنی سے کام لیا ہے کہ یہ کہتے ہوئے بھی نہ شرمائے کہ جب تک حکومت حاصل نہیں ہوئی تھی اس وقت تک حضورﷺ مساواتِ انسانی کا سبق دیتے رہے اور جب حکومت حاصل ہو گئی تو اس وعظ وتلقین کو (خاکم بدہن) بالائے طاق رکھ کر حضورﷺ نے حکومت کو اپنے خاندان میں محدود کر لیا۔
جواب: یہ رُو دَر رُو بہتان کی ایک اور مثال ہے۔ میرے جس مضمون کا حلیہ بگاڑ کر میرے ہی سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اِسلام کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے میں اندھا دھند طریقوں سے کام نہیں لیا جا سکتا، بلکہ کسی اصول کو کسی معاملے پر منطبق کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس کو نافذ کرنے کے لیے حالات سازگار ہیں یا نہیں۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو پہلے انھیں سازگار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، پھر اسے نافذ کرنا چاہیے۔ اس کی مثال میں یہ بتایا گیا تھا کہ اگرچہ اِسلام کے اصولِ مساوات کا یہ تقاضا تھا کہ دوسرے تمام مناصب کی طرح خلیفہ کے انتخاب میں بھی صرف اہلیت کو پیش نظر رکھا جاتا اور اس بات کا کوئی لحاظ نہ کیا جاتا کہ اہل آدمی کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے لیکن نبی ﷺ نے جب دیکھا کہ عرب کے حالات خلافت کے معاملے میں اس قاعدے کو نافذ کرنے کے لیے اس وقت سازگار نہیں ہیں، اور ایک غیر قریشی کو خلیفہ بنا دینے سے آغاز ہی میں اِسلامی خلافت کے ناکام ہو جانے کا اندیشہ ہے تو آپ نے ہدایت فرما دی کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔ اس بات کو جو معنی ڈاکٹر صاحب نے پہنائے ہیں، انھیں ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے۔