نظامِ حکومت کا اِشتِراک بجائے خود ایک ناپائیدار اور ضعیف البیان چیز ہے اور اس کی بناپر ہرگز کسی مستحکم قومیّت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ایک سلطنت کی رعایا کو اس کی وفاداری کے رشتہ میں منسلک کرکے ایک قوم بنادینے کا خیال کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ سلطنت جب تک غالب و قاہر رہتی ہے، رعایا اس کے قانون کی گرفت میں بندھی رہتی ہے۔ یہ گرفت جہاں ڈھیلی ہوئی مختلف عناصر منتشر ہوگئے۔ سلطنت ِ مغلیہ میں مرکزی طاقت کے کمزور ہونے کے بعد کوئی چیز ہندوستان کے مختلف علاقوں کو اپنی الگ الگ سیاسی قومیّتیں بنالینے سے نہ روک سکی۔ یہی حشر سلطنت ِ عثمانیہ کا ہوا۔ آخری دور میں جوان ترک نے عثمانی قومیّت کا قصر تعمیر کرنے کے لیے بہت کچھ زور لگایا مگر ایک ٹھیس لگتے ہی سب اینٹ پتھر جدا ہوگئے۔ تازہ ترین مثال آسٹریا ہنگری کی ہے اور تاریخ سے بہت سی مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد جو لوگ سیاسی قومیتوں کی تعمیر ممکن سمجھتے ہیں وہ محض اپنے تخیل کی شادابی کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔