پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جدا گانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ اسے جغرافی حلقوں یا نسلی دائروں میں تقسیم کیا جائے۔ انسان بلاشبہ زمین کے بہت سے حصوں میں پایا جاتا ہے جنھیں دریائوں نے، پہاڑوں نے، جنگلوں اور سمندروں نے یا مصنوعی سرحدوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ اور انسان کی بہت سی مختلف نسلیں اور قومیں بھی ضرور پائی جاتی ہیں جن کے درمیان تاریخی، نفسیاتی اور دوسرے اسباب سے انسانیت کے نشووارتقا نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ لیکن اس اختلاف کو حجت قرار دے کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر نسل، ہر قوم، اور ہر جغرافی آبادی کے لیے ’’دین‘‘ یعنی نظامِ زندگی الگہونا چاہیے وہ سراسر ایک مہمل بات کہتا ہے۔ اُس کی محدود نگاہ مظاہر اور عوارض کے اختلافات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اس ظاہری کثرت کے اندر جو ہر انسانیت کی وحدت کو وہ نہیں پا سکا۔ اگر فی الواقع یہ اختلافات اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی بِنا پر دین الگ الگ ہونے چاہییں تو مَیں کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ جو اختلافات ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان آپ پاتے ہیں، اُن سب کو جس قدر مبالغے کے ساتھ چاہیں قلم بند کریں، اور پھر اُن اختلافات کا خالص علمی جائزہ لیں جو عورت اور مرد میں پائے جاتے ہیں، جوہر انسان اور دوسرے انسان میں پائے جاتے ہیں، جو ایک ماں اور باپ کے دو بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ دعوٰی کروں کہ علمی تحلیل وتجزیہ میں پہلی قسم کے اختلافات سے یہ دوسری قسم کے اختلافات بہرحال شدید تر ہی نکلیں گے۔ پھر کیوں نہ کہہ دیجیے کہ ہر فرد کا نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے؟ مگر جب آپ انفرادی، جنسی، خاندانی کثرتوں کے اندر وحدت کا ایک عنصر اور پائیدار عنصر ایسا پاتے ہیں جس کی بنیاد پر قوم، وطن یا نسل کا تصوّر قائم ہو سکتا ہے اور اس تصوّر کی بنا پر ایک قوم یا ایک ملک کی کثیر آبادی کے لیے ایک نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جاتا ہے، تو آخر کس چیز نے آپ کو روک دیا ہے کہ قومی، نسلی، وطنی کثرتوں کے درمیان ایک بڑی اور بنیادی وحدت کا عنصر آپ نہیں پا سکتے جس پر انسانیت کا تصوّر قائم ہو، اور جس کی بنا پر تمام عالمِ انسانی کا ایک دین یا نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جائے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تمام جغرافی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود اصل بنیادی امور میں سب انسان بالکل یکساں ہیں؟کیا وہ قوانینِ طبعی یکساں نہیں ہیں جن کے تحت انسان دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے؟ کیا وہ نظامِ جسمانی یکساں نہیں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے؟ کیا وہ خصوصیات یکساں نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے؟ کیا وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں نہیں ہیں جو ان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں؟ کیا وہ قوتیں یکساں نہیں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفسِ انسانی کہتے ہیں؟ اور کیا بنیادی طور پر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی اور معاشی عوامل بھی یکساں نہیں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ ان تمام امور میں سب انسانوں کے درمیان یکسانی پائی جاتی ہے تو پھر یقینا ان اصولوں کو بھی، جو انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، عالم گیر ہونا چاہیے۔ اُن کے قومی یا نسلی یا وطنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ قومیں اور نسلیں ان اصولوں کے تحت اپنی خصوصیات کا اظہار اور جزوی طور پر اپنے معاملاتِ زندگی کا بندوبست مختلف طریقوں سے کر سکتی ہیں۔ اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ مگر انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جس صحیح دین یا نظامِ زندگی کی ضرورت ہے وہ بہرحال ایک ہی ہونا چاہیے۔ عقل یہ باور کرنے سے انکار کرتی ہے کہ جو چیز ایک قوم کے لیے حق ہو وہ دوسری قوم کے لیے باطل ہوجائے اور جوایک قوم کے لیے باطل ہو وہ دوسری قوم کے لیے حق ہو جائے۔