ان حالات میں جب کہ اسلام کا باغ ویران ہو چکا‘ اس کے باغبان بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ کر حصول دنیا کی دوڑ میں شریک ہو چکے‘ اور دنیا کی چکا چوند نے انہیں اس درجہ مرعوب اور اس کی متاع قلیل نے انہیں اس قدر موہ لیا ہے کہ کوئی مغربی ازموں کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور کوئی مشرقی ازموں کے لیے دیوانہ ہو رہا ہے اور ان کے سحر سے مسحور ہو کر دونوں گروہ اپنے ہاتھوں اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور ڈھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں‘ تو اصلاح احوال کی راہ کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ اللہ کے دین اور اس کے مقتضیات اور اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اسے ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے شعوری طور پر قبول کیا جائے اور اس عزم کے ساتھ قبول کیا جائے کہ اب آئندہ جب تک دم میں دم ہے‘ رگوں میں خون ہے اور حواس قائم ہیں‘ جانتے بوجھتے کوئی حرکت بھی ایسی نہیں کریں گے جو اسلامی طرز حیات و تصورات کے منافی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ:
قل انی امرت ان اکون اول من اسلم۔ (۶:۱۴)
’’یعنی ان سے کہو کہ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کردوں‘‘
قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین۔ (۶:۱۶۲۔۱۶۳)
’’کہو‘ میری نماز (جسم و جان کی سب طاقتیں) میری قربانی (میرے سب مال و متال) میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہیں‘ جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘