ٹھیک یہی بات ہے جو اسلام کہتاہے۔ اس نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادی اور حسی فرق کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سب انسان ایک ہی اصل سے ہیں:
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًاکَثِیْرًا وَّ نِسَاءً (النساء)
’’خدا نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دُنیا میں پھیلا دیا‘‘۔
تمھارے درمیان مرزبوم اور مولد و مدفن کا اختلاف کوئی جوہری چیز نہیں ہے۔ اصل میں تم سب ایک ہی ہو۔
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ (الانعام)
’’اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر ہر ایک کا ایک ٹھکانا ہے اور ایک جگہ اس کے سپردِ خاک ہونے کی ہے‘‘۔
اس کے بعد نسل اور خاندان کے اختلاف کی بھی یہ حقیقت بتا دی کہ:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات)
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جائو۔ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
یعنی یہ شعوب و قبائل کا اختلاف محض تعارف کے لیے ہے۔ آپس کے بُغض، ایک دوسرے پر تفاخر، ایک دوسرے سے جھگڑنے کے لیے نہیں ہے۔ اس اختلاف میں انسانی اصل کی وحدت کو نہ بھول جائو۔ تم میں اگر کوئی حقیقی تفریق ہے تو وہ اَخلاق و اعمال کی نیکی اور بدی کی بنا پر ہے۔
پھر فرمایا کہ یہ گروہوں کی تفریق اور جماعتوں کا اختلاف خدا کا عذاب ہے جو تم کو آپس کی دشمنی کا مزہ چکھاتا ہے۔
اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ (الانعام)
’’یا تم کو گروہ گروہ بنا دے اور تمھیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھائے‘‘۔
اس گروہ بندی کو اس نے من جملہ اُن جرائم کے قرار دیا ہے جن کی بنا پر فرعون لعنت و عذاب کا مستحق ہوا۔
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا (القصص)
’’فرعون نے زمین میں تکبر کیا اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا‘‘۔{ { اسی وجہ سے فقہائے اسلام کے ایک بڑے گروہ نے مکہ کی سرزمین پر کسی کے حق ملکیت کو تسلیم نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ اہلِ مکہ کو گھروں کے دروازے تک بند کرنے سے روکتے تھے تاکہ حجاج و زائرین جہاں چاہیں اُتریں۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز مکہ میں مکانات کے کرائے لینے سے منع کرتے تھے اور انھوں نے امیرمکہ کو فرمان لکھا تھا۔ لوگوں کو اس سے روکیں۔ بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جس نے اپنے خرچ سے وہاں مکان بنایا وہ اس کا کرایہ لے سکتا ہے مگر میدان اور خرابات اور مکانوں کے صحنوں پر سب کا حق ہے۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے کہ مکۃ حرام لا یحل بیع رباعھا ولا اجور بیوتھا ۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد ہوا: انما ھی مناخ من سبق۔یہ اس زمین کا حال ہے جس سے اسلام نے خصوصیت پیدا کی۔
} یہ آیت اس تاریخی جرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ فرعون نے مصر کے باشندوں میں قبطی اور غیرقبطی کی تفریق قائم کی اور دونوں کے ساتھ مختلف طرزِعمل اختیار کیا۔}
پھر کہا: زمین خدا کی ہے۔ اس نے نوعِ انسانی کو اس میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا ہے، اس کی سب چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے، کچھ ضروری نہیں کہ انسان ایک خطہ کا بندہ بن کر رہ جائے۔ یہ وسیع زمین اس کے لیے کھلی ہوئی ہے، ایک جگہ اس کے لیے تنگ ہو تو دوسری جگہ چلا جائے، جہاں جائے گا خدا کی نعمتیں موجود پائے گا۔
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ)
’’آدم ؑ کی تخلیق کے وقت خدا نے فرمایا کہ مَیں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں‘‘۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ (الحج)
’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے تمھارے لیے ان چیزوں کو مسخر کردیا ہے جو زمین میں ہیں‘‘۔
اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا (النساء)
’’کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرکے چلے جاتے؟‘‘
وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً (النساء)
’’جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں وافر جگہ اور کشائش پائے گا‘‘۔
آپ پورے قرآن کو دیکھ جایئے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو نسلیت یا وطنیت کی تائید میں نہ ملے گا۔ اس کی دعوت کا خطاب پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیروصلاح کی طرف بلاتا ہے۔ اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔ اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف مکہ کی زمین ہے، لیکن اس کے متعلق بھی صاف کَہ دیا کہ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ (الحج:۳) یعنی مکہ کے اصل باشندے اور باہروالے سب مسلمان برابر ہیں۔{ FR 6384 } اور جو مشرکین وہاں کے اصلی باشندے تھے ان کے متعلق کہا کہ وہ نجس ہیں، ان کو وہاں سے نکال باہر کرو۔
اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا(التوبہ:۲۸)
اس تصریح کے بعد اسلام میں وطنیت کا کُلی استیصال ہو جاتا ہے، اور درحقیقت ایک مسلمان یہی کَہ سکتا ہے کہ:
ہر ملک ملکِ ما است کہ ملکِ خدائے ماست