حکمت ِ عملی کے باب میں مصنف پر چند الزامات
مصنف کے ایک سابقہ مضمون جماعت کا موقف اور طریق کار کی اشاعت کے بعد ایک صاحب لکھتے ہیں-
’’آپ نے ربیع الثانی ۱۳۷۶ھ (دسمبر ۱۹۵۶ئ )کے ترجمان میں کسی صاحب کے دو مکتوبات کا جواب دیا ہے جن میں آپ نے لکھا ہے، ہم اپنی تحریک کو خلا میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں، اگر ہمارا مقصد محض اعلانِ حق ہوتا تو ہم ضرور صرف بے لاگ حق بات کہنے پر اکتفا کرتے، لیکن ہمیں چونکہ حق کو قائم بھی کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہے اس لیے ہمیں نظریت (آئیڈیلزم) اور حکمت ِعملی کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے ‘‘… ۱؎ حکمت ِ عملی ہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل ِمقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو آگے پیش قدمی کا ذریعہ بنانا چاہیے، کن کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن کن موانع کے ہٹانے کو مقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجائش نکالنا چاہیے۔‘‘
آئیڈیلزم اور حکمت ِ عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے اور بعض اہم تر مصالح یا دینی مقاصد کی خاطر بعض اصولوں میں لچک پیدا کرنے کی مثال آپ نے سنّت نبویؐ سے یہ پیش کی ہے: ’’اسلامی نظام کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تمام نسلی اور قبائلی امتیازات کو ختم کرکے اس برادری میں شامل ہونے والے سب لوگوں کویکساں حقوق دیئے جائیں … لیکن جب پوری مملکت کی فرمانروائی کا مسئلہ سامنے آیا تو آنحضورؐ نے ہدایت دی کہ الائمۃ من قریش (امام قریش میں سے ہوں)‘‘ اس استثنا کی توجیہ آپ نے یہ کی ہے کہ ’’اس وقت عرب کے حالات میں کسی غیر عرب تو درکنار کسی غیر قریشی خلیفہ کی خلافت بھی عملاً کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے حضورؐ نے خلافت کے معاملے میں مساوات کے اس عام اصول پر عمل کرنے سے صحابہ کو روک دیا کیونکہ اگر عرب ہی میں حضورؐ کے بعد اسلامی نظام درہم برہم ہو جاتا تو دنیا میں اقامت دین کے فریضے کو کون انجام دیتا؟ یہ اس بات کی صریح مثال ہے کہ ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت ِ عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے لکھا ہے ’’مگر یہ معاملہ اسلام کے سارے اصولوں کے بارے میں صحیح نہیں ہے، جن اصولوں پر دین کی اساس قائم ہے، مثلاً توحید اور رسالت وغیرہ، ان میں عملی مصالح کے لحاظ سے لچک پیدا کرنے کی کوئی مثال حضورؐ کی سیرت میں نہیں ملتی۔ نہ اس کا تصوّر ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
بعض لوگوں نے آپ کے ایسے اقتباسات نقل کرکے ان سے بعض نتائج اخذ کیے ہیں اور پھر آپ پر بعض اعتراضات وارد کیے ہیں۔ مثلاً ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’جو فکر و فلسفہ تحریک اقامت دین کے نام سے سیّدالرسلؐ کی جانب منسوب کیا جا رہا ہے، اس کا تجزیہ کیجیے تو صورتِ واقعہ یوں بنتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی نظام قائم کرنے کی تحریک جاری فرمائی اور اس کے چند اصول بیان فرمائے۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جن کا تعلق ایمانیات سے تھا، مثلاً ایمان باللہ، ایمان بالرسالت وغیرہ … حضورؐ کی پوری زندگی میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے ان اصولوں میں لچک اور استثنا کا ثبوت پیش کیا جا سکے۔ لیکن ان کے ساتھ کچھ دوسری قسم کے اصول بھی آنحضورؐ نے پیش فرمائے۔ مثلاً جو اسلامی نظام میں قائم کروں گا اس میں ہر اسود و ابیض اور عربی و عجمی کا درجہ مساوی ہو گا، سب کو جان و مال اور عزت و آبرو کی آزادی حاصل ہو گی وغیرہ … لوگوں نے ان اصولوں کو مفید محسوس کیا اور اپنی خدمات اسلامی نظام کے قیام کے لیے پیش کر دیں … بالآخر وہ لمحہ آیا کہ یہ نظام عملاً قائم ہوگیا۔ اس مرحلے پر قائد تحریک (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو طرزِ عمل اختیار فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی تحریک کے آغاز میں لوگوں کے سامنے جو آئیڈیل پیش فرمایا تھا، اس کے ان اصولوں کو جو اوّل الذکر قسم (ایمانیات) کے اصولوں سے الگ تھے (مثلاً مساوات، شخصی آزادی، جان و مال کی حفاظت وغیرہ) ان کے بارے میں طے فرمایا کہ ان میں سے جو اصول حکمت ِ عملی سے متصادم ہوں گے، یعنی جن پر عمل پیرا ہونے سے اقامت دین کی تحریک کو نقصان پہنچے گا، ان میں استثنا اور لچک پیدا کر لی جائے گی۔‘‘
مزید تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے آپ کا موقف یہ قرار دیا گیا ہے گویا کہ آپ نے اس اصول کو بطور فلسفہ و عقیدہ کے طے کر لیا ہے کہ اسلامی نظام کے دعوتی اور اشاعتی دور میں جو اصول بیان کیے جائیں اور جن پر لوگوں کو جمع کیا جائے، جب اسلامی نظام قائم کرنے کا وقت آئے گا تو اس تحریک کے قائد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ توحید و رسالت ایسے اساسی اصولوں کے سوا تحریک کے مفاد کے لیے جس اصول میں ضروری خیال کرے استثنا پیدا کر لے، اس پر عمل کرنے سے اپنی جماعت کو روک دے اور جو ضمانت اس تحریک نے عوام کو ابتدائی دور میں دی ہو، اس میں سے جس جزو کو وہ دین کی مصلحت کے لیے مضر خیال کرے، ساقط کردے۔‘‘
آپ کا یہ مسلک متعیّن کرنے کے بعد انھی مکتوبات سے آپ کا ایک دوسرا اقتباس بھی دیا گیا ہے جس میں آپ نے کہا ہے کہ ’’ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوتِ اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے اس کو اختیار کر لیں۔‘‘ اس اقتباس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے بیان میں تضاد و تناقض ہے اور آپ کا رویہ ایک معمّا بن گیا ہے۔ پھر یہ حضرات اس معمّے کو حل کرنے اور بقولِ خویش اس کے پس منظر میں آپ کے ذہن کی گہرائیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور آخرکار یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ پہلے کبھی اسلام کے ساتھ اخلاص کا معاملہ کرتے رہے ہوں تو کرتے رہے ہوں مگر پاکستانی سیاسیات میں حصّہ لینے کے بعد آپ اسلام کو اپنی ذاتی اور جماعتی اغراض پر قربان کرنے کے در پے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف آپ مکمل اسلامی دستور کے مطالبے کی کامیابی سے مایوس ہیں مگر دوسری طرف مسند حکومت پر پہنچنے کے بھی متمنّی ہیں، اس لیے اپنے اس اصول کو برقرار رکھنے کے لیے کہ ’’جس حکومت کا دستور ایسا اور ایسا نہ ہو اس میں حصّہ نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ آپ نے اصولوں میں لچک پیدا کرنے کا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ اسی طرح آپ کی جداگانہ انتخاب کی حمایت کا سبب بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ مخلوط انتخاب میں آپ کا اور آپ کی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ اس معاملے میں اسلام کے اصولوں کا سہارا لیتے ہیں۔
جو لوگ حال ہی میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے ہیں ان کی علیحدگی کی اصل بنیاد بھی یہی بیان کی گئی ہے کہ ان کے احساس کے مطابق بھی آپ کے سامنے اب مسئلہ صرف اقتدار حاصل کرنے کا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ جس وقت جو پالیسی مناسب سمجھیں اختیار کرنے پر آمادہ ہیں چاہے وہ اسلام کے اصولوں کے کتنے ہی خلاف ہو۔ نیز اگر ضرورت پڑے تو آپ اسلامی اصولوں کی من مانی تشریح کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کے بقول آپ کی اسلامی تحریک اور ان طالع آزما سیاست دانوں کی تحریکات کے مابین کوئی فرق نہیں ہے جو حصولِ اقتدار سے پہلے نہایت پاکیزہ اصول بیان کرتے ہیں لیکن جب انھیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو وہ ان وعدوں اور اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں میں وقتی مصالح کی بنا پر اپنی صوابدید کے مطابق ترمیم و تنسیخ جائز سمجھتے ہیں۔
بہرکیف اس طرح کی بحثیں اور اعتراضات چونکہ پیدا کیے جا رہے ہیں اور ان سے بکثرت لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ بہت مناسب بلکہ ضروری ہے کہ آپ ایک مرتبہ اچھی طرح وضاحت کر دیں کہ آپ کی زیر بحث تحریروں کا صحیح مدعا کیا ہے اور جماعت کی پالیسی کے خلاف جو اعتراضات پھیلائے گئے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔‘‘
مصنف کا جواب
میری مذکورہ بالا تحریروں پر جو حاشیہ آرائیاں کی گئی ہیں وہ سب میری نگاہ سے گزرتی رہی ہیں۔ مگر میں نے ان پر اسی طرح صبر کیا جس طرح اس سے پہلے بہت سے حضرات کے فتوئوں، اشتہاروں اور رسالوں پر صبر کرتا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو تھوڑی سی مہلت عمر اور قوتِ تحریر و تقریر مجھے عطا فرمائی ہے اس کو میں کسی مفید کام میں صرف کرنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا میں اس سے اﷲ کے دین کی کچھ خدمت ہو جائے اور آخرت میں وہ میرے گناہوں کا کفّارہ بن سکے۔ میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ اس ذرا سے وقت اور اس تھوڑی سی قوت کو ایسی بحثوں میں ضائع کر دوں جن کا کوئی حاصل دنیا میں دین اور اہلِ دین کی رسوائی اور آخرت میں لفظ لفظ پر اللہ تعالیٰ کی باز پرس کے سوا کچھ نظر نہ آتا ہو۔ اس وقت بھی میرے پیش نظر ان حاشیہ آرائیوں کا جواب دینا نہیں ہے جو میری ان تحریروں پر کی گئی ہیں‘ بلکہ صرف اپنا مدّعا واضح کرنا ہے تاکہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ان سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا ہو تو اس کے دل کا وسوسہ دور ہو جائے۔
ان عبارتوں سے میرا مدعا جو کچھ ہے اسے سمجھنے کے لیے وہی ایک فقرہ کافی ہے جو خود ان نقل کردہ عبارتوں میں موجود ہے۔
’’ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت ِ عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔‘‘
اس فقرے پر جو شخص بھی تعصّب اور نفسانیت سے بے لوث ہو کر غور کرے گا۔ وہ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نظری حیثیت سے تو ہر صحیح اصول قائم کرنے کے لیے اور ہر غلط چیز ترک کرنے اور مٹا دینے کے لائق ہے لیکن عملی زندگی میں خیر و شر کی کشمکش کے درمیان انسان کو بہت سے مواقع پر ایسے حالات سے بھی سابقہ پیش آ جاتا ہے جن میں ایک چھوٹی بھلائی پر اصرار کرنے سے ایک بڑی بھلائی کا نقصان ہوتا ہے، یا ایک چھوٹی برائی ترک کرنے سے ایک بڑی برائی لازم آتی ہے۔ ایسے مواقع پر عقل بھی یہ چاہتی ہے کہ ایک کم قیمت چیز پر زیادہ قیمتی چیز کو قربان نہ کیا جائے، اور شریعت الٰہیہ میں جو حکمت معتبر ہے اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ بڑی برائی سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی کو گوارا کیا جائے اور چھوٹی بھلائی کی خاطر بڑی بھلائی کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس معاملے میں میں صرف عقل کو کسوٹی بنانے کا قائل نہیں ہوں کہ آدمی جب چاہے عملی ضروریات کی بنا پر اسلام کے اصول و قواعد اور احکام میں سے جس کی بندش سے چاہے نکل جائے۔بلکہ یہ بات میرے اسی فقرے سے ظاہر ہے کہ میں اس حکمت کا قائل ہوں جو خود اسلام کے دیئے ہوئے معیار سے جانچ کر یہ دیکھتی ہے کہ کس چیز کی خاطر کس چیز کو کہاں اور کس حد تک قربان کرنا ناگزیر ہے۔
اب دیکھیے کہ آیا یہ کوئی میری اپنی من گھڑت بات ہے یا فی الواقع شریعت کے نظام میں اس کے اپنے سکھائے ہوئے اصول و قواعد اور احکام کے درمیان قیمتوں کا فرق ہے اور کوئی ایسا قاعدہ پایا جاتا ہے جس کے لحاظ سے کم قیمت چیز کو بڑی قیمت کی چیز پر قربان کرنا جائز ہو۔ اس کی مثالیں اگر قرآن، حدیث، آثارِ صحابہ اور فقہا و محدّثین کی تصریحات میں تلاش کی جائیں تو ان کا شمار مشکل ہو گا۔ میں یہاں صرف چند مثالیں پیش کروں گا۔
مذکورہ بحث مثالوں کی روشنی میں
(۱) اسلام میں توحید کے اقرار کی جیسی کچھ اہمیّت ہے کسی جاننے والے سے پوشیدہ نہیں۔ یہ حق پرستی کا اوّلین تقاضا اور ہر مومن سے دین کا سب سے پہلا مطالبہ ہے۔ نظری حیثیت سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں قطعاً کسی لچک کی گنجائش نہ ہونی چاہیے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ چاہے اس کے گلے پر چھری رکھ دی جائے اور خواہ اس کی بوٹیاں کاٹ ڈالی جائیں، وہ توحید کے اقرار و اعلان سے ہرگز نہ پھرے۔ مگر قرآن ایسے حالات میں جب کہ ایک شخص کو ظالموں سے جان کا خطرہ لاحق ہو جائے یا اسے ناقابلِ برداشت اذیت دی جائے، کلمہ ٔ کفر کہہ کر بچ جانے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ دل میں عقیدۂ توحید پر قائم رہے (مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ النحل106:16) یہ چاہے عزیمت کا مقام نہ ہو، مگر رخصت کا مقام ضرور ہے اور یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نگاہ میں مسلمان کی جان کی قیمت اقرارِ توحید سے زیادہ ہے حتیٰ کہ اگر ان دونوں میں سے ایک کو قربان کرنا ناگزیر ہو جائے تو شریعت اقرار توحید کی قربانی گوارا کر سکتی ہے لیکن کیا جان بچانے کے لیے کفر کی تبلیغ بھی کی جا سکتی ہے؟ کسی دوسرے مسلمان کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے؟ اسلامی حکومت کے خلاف جاسوسی کی خدمت بھی انجام دی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب لازماً نفی میں ہے۔ کیونکہ یہ اپنی جان کی قربانی کی بہ نسبت بہت زیادہ قیمتی چیزوں کی قربانی ہو گی جس کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جا سکتی۔
(۲) اسلام میں شراب، خنزیر، مردار، خون اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا جس طرح زنا، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہو جائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے کیونکہ ان حرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے، مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے۔ شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کر دے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہو جائے‘ شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکہ زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رُخصت نہیں دیتی کیونکہ یہ برائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی برائی سے شدید تر ہیں۔
(۳) راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین برائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض حالات میں اس کے وجوب تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور ازدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہو جائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے تو ان کو بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے در پے ہو اور وہ غریب کہیں چھپا ہوا ہو تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔ اس معاملے میں شریعت کے احکام ملاحظہ ہوں۔
عن ام کلثوم بنت عُقبۃ بن مُعَیط قالت سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس فینمی خیراً (متفق علیہ) و فی روایۃ مسلم زیادۃ قالت و لم اسمعہ یرخص فی شیء مما یقولہ الناس الا فی ثلث یعنی الحرب والاصلاح بین الناس و حدیث الرجل امرأتہ و حدیث المرأۃ زوجہا۔
ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اور اس غرض کے لیے خیر پہنچاتا اور خیر کہتا ہے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی روایت میں اتنی بات اور زیادہ ہے کہ انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملے میں وہ باتیں کرنے کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا جو لوگ کیا کرتے ہیں، مگر تین معاملات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک جنگ، دوسرے اصلاح بین الناس، تیسرے میاں اور بیوی کی باتیں۔
عن اسماء بنت یزید عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یحل الکذب الا فی ثلاث تحدث الرجل امراتہ لیرضیہا و الکذب فی الحرب و فی الاصلاح بین النّاس۔
(ترمذی)
اسماء بنت یزید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ جھوٹ جائز نہیں ہے مگر تین چیزوں میں۔ مرد کی بات عورت سے تاکہ وہ اسے راضی کرے۔ جنگ اور اصلاح بین الناس۔
اس کی عملی مثالیں بھی احادیث میں موجود ہیں۔ کعب بن اشرف کے قتل کے لیے محمد بن مسلمہ کو جب حضورؐ نے مامور کیا تو انھوں نے اجازت مانگی کہ اگر کچھ جھوٹ بولنا پڑے تو بول سکتا ہوں؟ حضورؐ نے بالفاظ صریح انھیں اس کی اجازت دی۔ (بخاری، باب الکذب فی الحرب و باب الفتک باب الحرب) حجاج بن علاط نے غزوۂ خیبر کے موقع پر مکہ والوں کے قبضے سے اپنا مال نکال کر لے آنے کے لیے جھوٹ سے کام لینے کی اجازت مانگی اور حضورؐ نے ان کو بھی اس کی اجازت عطا فرمائی (احمد، نسائی، حاکم و ابن حبان)
ان نظائر کی بنا پر فقہا و محدّثین نے جو نتائج نکالے ہیں۔ وہ بھی ملاحظہ فرما لیے جائیں۔ علاّمہ ابن حجر لکھتے ہیں-
اتفقوا علی جواز الکذب عند الاضطرار کما لو قصد ظالم قتل رجل وہو مختف عندہ فلہ ان ینفی کونہ عندہ و یحلف عن ذالک ولا یاثم۔ (فتح الباری۔ ج ۵ ص۔ ۱۹)
علما اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ شدید ضرورت پیش آنے پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ مثلاً اگر ایک ظالم کسی شخص کو قتل کرنا چاہتا ہو اور وہ مظلوم کسی شخص کے پاس چھپا ہوا ہو تو اس کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے پاس اس کے ہونے کا انکار کرے اور اس پر قسم کھا لے۔ ایسا کرنے میں وہ گناہ گار نہ ہو گا۔
علاّمہ ابن القیّم حجاج بن علاط سُلَمِی کا واقعہ نقل کرنے کے بعد اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں-
ومنہا جواز کذب الانسان علی نفسہ و علی غیرہ اذا لم یتضمن ضرر ذالک الغیر اذا کان یتوصل بالکذب الٰی حقہ۔
اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ آدمی کا اپنے متعلق یا کسی دوسرے کے متعلق جھوٹ بولنا ایسی حالت میں جائز ہے جب کہ دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور آدمی اس جھوٹ کے ذریعے سے اپنا ایک جائز حق حاصل کر لے۔(زاد المعاد، ج ۲- ص ۲۰۳)
علاّمہ نووِی ریاض الصالحین میں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ اصول بیان کرتے ہیں-
(کل مقصود محمود یمکن تحصیلہ بغیر الکذب یحرم الکذب فیہ وان لم یمکن تحصیلہ الا بالکذب جاز الکذب ثم ان کان تحصیل ذالک المقصود مباحا کان الکذب مباحا و ان کان واجبًا کان الکذب واجبًا ) (باب تحریم الکذب)
ہر اچھا مقصد جس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن ہو اس کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے۔ لیکن اگر اس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن نہ ہو تو جھوٹ جائز ہے۔ پھر اگر وہ مقصد ایسا ہو کہ اس کا حاصل کرنا مباح ہو تو اس کے لیے جھوٹ بھی مباح ہے۔ اور اگر اس کا حصول واجب ہو تو اس کے لیے جھوٹ بھی واجب ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو یہاں بھی وہی قاعدہ کا ر فرما نظر آتا ہے کہ سچ بولنے اور جھوٹ سے اجتناب کرنے کی ایک اخلاقی قیمت ہے جس سے زیادہ قیمتی چیز کا نقصان ہو رہا ہو تو اس نسبتاً کمتر چیز کا نقصان گوارا کیا جا سکتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں گوارا کرنا چاہیے۔
(۴) غیبت کی حرمت اسلام میں جیسی کچھ شدید ہے وہ قرآن کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا الحجرات12:49 (کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟)لیکن کون نہیں جانتا کہ محدّثین نے احادیث کی تحقیق کے لیے ہزارہا راویوں پر جرح کر ڈالی اور یہ سارا کام سراسر غیبت تھا۔ کیا اس کے لیے کوئی دلیلِ جواز اس کے سوا پیش کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط باتوں کی نسبت اور دین میں حضورؐ کی سند سے ایسی باتوں کا رواج جو حضورؐ نے نہیں فرمائیں، غیبت کی بہ نسبت بہت بڑی برائی تھی۔ اس لیے اس بڑی برائی سے بچنے کے لیے اس چھوٹی برائی کو اختیار کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب تھا؟ اسی طرح اگر کوئی شریف آدمی کسی شخص کو بیٹی دے رہا ہو، یا کسی کے ساتھ شرکت کا معاملہ کر رہا ہو، اور آپ کو معلوم ہو کہ وہ شخص بداخلاق اور بد معاملہ ہے تو اس کی برائی بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے، کیونکہ ایک غریب لڑکی کی زندگی برباد ہونا، یا ایک شریف آدمی کا ایک بے ایمان آدمی کے پھندے میں پھنس جانا غیبت کی برائی سے زیادہ بڑی برائی ہے۔
(۵) غیر محرم عورت کو برہنہ کرنا اسلام کے صریح احکام کی رُو سے قطعاً حرام ہے۔ لیکن فتح مکّہ سے پہلے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے جس عورت کے ذریعے سے اہلِ مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع لکھ کر بھیجی تھی اسے حضرت علیؓ راستے میں گرفتار کرتے ہیں اور خط کی تلاشی کے لیے اس کے کپڑے اتارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ابن القیم نے اس سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ مصلحت ِاسلام و مسلمین کی خاطر تفتیش کی ضرورت پیش آئے تو عورت کو برہنہ کیا جا سکتا ہے۔ (زاد المعاد، ج ۲ ص ۲۳۹)
(۶) اسلام میں نماز کی اہمیّت جیسی کچھ ہے، بیان کی حاجت نہیں لیکن بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ بنی عمرو بن عوف کے ہاں ایک جھگڑے میں صلح کرانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، نماز کا وقت آیا اور حضورؐ اصلاح بین الناس کے کام میں مشغول رہے، آخرکار حضرت ابوبکرؓ کی امامت میں جماعت کھڑی ہو گئی اور حضورؐ بعد میں آ کر جماعت میں شریک ہوئے۔
(۷) انکارِ منکر شریعت حقّہ کے نہایت اہم واجبات میں سے ہے اور اس باب میں خدا اور رسول کے تاکیدی احکام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن جب یہی چیز ایک منکر سے عظیم تر منکر رونما ہونے کی موجب ہوتی نظر آئے تو اس سے اجتناب واجب ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فاسق و فاجر امرا کے خلاف خروج کرنے سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ مَنْ رَأَیٰ مِنْ اَمِیْرِہٖ مَایَکْرَھُہٗ، فَلْیَصْبِرْ وَلَا یَنْزِ عَنَّ یَدًا مِّنْ طَاعَتِہٖ۔
(۸) اسلام میں اقامت ِحدود کے لیے‘ جیسے سخت تاکیدی احکام ہیں‘ ان سے کون صاحب ِعلم ناواقف ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر چوروں کے ہاتھ کاٹنے سے منع فرما دیا (ابو دائود) اور حضرت عمرؓ نے فرمان جاری کیا کہ جب کوئی فوج دشمن کے علاقے میں جنگ کر رہی ہو اس وقت وہاں کسی مسلمان پر حد جاری نہ کی جائے کیونکہ اس سے اندیشہ تھا کہ کہیں کسی شخص پر حمیت جاہلیہ کا غلبہ نہ ہو جائے اور وہ دشمن سے نہ جا ملے (اعلام الموقعین جلد ۳ ص ۲۹- ۳۳) یہ معاملہ حالت جنگ تک ہی محدود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ افک میں تین مخلص مومنوں پر حدِّ قذف جاری فرمائی مگر عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کو چھوڑ دیا۔ ابن القیم اس کے وجوہ بیان کرتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے اس پر حد جاری کرنے سے اجتناب ایک ایسی مصلحت کی بنا پر کیا جو اقامت ِحد کی بہ نسبت زیادہ اہم تھی اور یہ وہی مصلحت تھی جس کی بنا پر حضور اس سے پہلے بھی اس کا نفاق کھل جانے اور اس کی بہت سی موجب قتل باتیں سننے کے باوجود اس کو سزا دینے سے اجتناب فرماتے رہے تھے۔ وہ مصلحت یہ تھی کہ یہ شخص اپنے قبیلے میں بااثر تھا، اس کی بات ان میں چلتی تھی۔ اندیشہ تھا کہ اس پر حد جاری کی گئی تو فتنہ برپا ہو جائے گا۔ اس لئے حضورؐ نے اس کے قبیلے کی تالیف ِقلب کرنا پسند فرمایا اور یہ مناسب نہ سمجھا کہ اس پر حد جاری کرکے ان لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کر دیا جائے۔ (زاد المعاد، ج ۲ ص ۱۶۱)
مالِ غنیمت میں تمام شرکائے جنگ کے حقوق یکساں ہیں اور وہ ان میں برابری کے ساتھ تقسیم ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں شریعت کے احکام بالکل واضح ہیں اور یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے لیکن غزوۂ اوطاس کے اموالِ غنیمت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور دوسرے قبائل کے مؤلفۃ القلوب کو خوب دل کھول کر عطیے دیئے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انصار نے اس کی سخت شکایت کی تو حضورؐ نے اپنے اس فعل کی مصلحت یہ بتائی کہ یہ لوگ تالیف قلب کے محتاج ہیں اس لیے یہ دولت دنیا ان میں لٹا دی گئی ہے۔ اَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اَنْ یَّذْھَبَ النَّاسُ بِالشَّاۃِ وَالْبَعِیْرِ وَتَرْجِعُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ اِلٰی رِحَالِکُمْ (اے گروہ انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنی اقامت گاہوں کی طرف پلٹو؟)
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ دین کے سارے اصول اور احکام اپنی قدروقیمت اور اپنے وزن میں یکساں نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان مراتب کا فرق ہے، اور دین کا ہر قاعدہ بے لچک نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے قواعد میں لچک کی گنجائش ہے۔ اس باب میں اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ایک چھوٹی نیکی سے اگر بڑا گناہ لازم آتا ہو تو اس کا ترک اولیٰ ہے اور ایک چھوٹی برائی اگر کسی بڑی نیکی یا عظیم تر دینی مصلحت کے لیے ضروری ہو تو اسے اختیار کر لینا بہتر ہے اور دو برائیوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہونا بہرحال ناگزیر ہو جائے تو نسبتاً کم تر درجے کی برائی کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ انھی مثالوں سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ نظامِ شریعت میں قدروں کے درمیان فرقِ مراتب کا معیار کیا ہے، کس طرح کی چیزوں پر کس طرح کی چیزوں کو فوقیت دی گئی ہے اور کون سی قدریں ایسی ہیں جن سے بالاتر قدر کوئی نہیں ہے کہ اس پر انھیں قربان کیا جا سکتا ہو۔ میں نے زیر بحث عبارتوں میں جو کچھ لکھا تھا اس کی بنیاد یہی کچھ تھی۔ اب جن لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ معنی آفرینیاں کی ہیں اور انھیں میرا مسلک قرار دے کر مجھ پر طرح طرح کے گھنائونے الزامات لگائے ہیں ان کی باتوں سے میں بری الذّمہ ہوں، اپنی ان باتوں کے لیے وہ خود ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں۔
رہی وہ بحث جو اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ سے میرے استدلال پر کی گئی ہے تو اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جو کچھ میں نے دسمبر ۱۹۵۶ئ کے ترجمان القرآن میں بالا جمال لکھا ۱؎ ہے اسے اپریل ۱۹۴۶ئ کے ترجمان القرآن میں بالتفصیل لکھ چکا تھا، اور وہ میری کتاب رسائل و مسائل جلد اوّل کے صفحات میں بھی ستمبر ۱۹۵۱ئ سے موجود تھا مگر اس میں سے وہ کیڑے کبھی برآمد نہ ہوئے تھے جو دسمبر ۱۹۵۶ئ کے ترجمان کی مختصر عبارت سے یکایک برآمد ہونے شروع ہو گئے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اسے عَالِمُ السَّرَائِرَ وَالْخَفَایَا ہی بہتر جانتا ہے اور اسی کا جاننا کافی ہے۔ بہر حال یہ بات تو سب طالبانِ علم کو معلوم ہونی چاہیے کہ آیا اُن احادیث کی صحت سے انکار ہے جن کی بنا پر حضورؐ کی وفات کے بعد آپ کی جانشینی کے لیے قریش کو ترجیح دی گئی تھی؟ اور کیا اس واقعہ سے انکار ہے کہ سقیفۂ بنی ساعدہ کے وقت سے لے کر صدیوں تک انھی احادیث کی بنا پر قریش کو خلافت کے لیے ترجیح دی جاتی رہی حتیٰ کہ ایک مدت دراز تک فقہائے اسلام قرشیت کو خلافت کے لیے شرط سمجھتے رہے؟ یا ان احادیث اور حقائق کی صحت تسلیم کرنے کے بعد وہ اعتراضات کیے گئے ہیں جو سائل نے اپنے سوال میں معترضین کے مضامین سے نقل کیے ہیں؟ اگر پہلی بات ہے تو ان احادیث اور تاریخی واقعات پر ایک علمی تنقید ہونی چاہیے تاکہ ہم جیسے ناواقف لوگوں کے علم میں بھی کچھ اضافہ ہو جائے اور اگر دوسری بات ہے تو پھر سوچ لینا چاہیے کہ ان اعتراضات کا ہدف دراصل کون ہے اور میری ضد میں یہ گندگی کے چھینٹے کس دامن پاک پر پھینکے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی قابلِ ذکر ہے۔ دراصل یہ بحث شروع اس طرح ہوئی تھی کہ جماعت اسلامی نے ۱۹۵۰ئ۔۱۹۵۱ئ کے انتخابات کے موقع پر ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور وہ یہ تھی کہ امیدواری چونکہ اسلام میں ناجائز ہے۔ اس لیے ہم نہ خود امیدوار بن کر کھڑے ہوں گے نہ کسی امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ بعد میں تجربات سے ہم کو معلوم ہوا کہ ہم ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہر ضمنی اور عام انتخاب میں پورے ملک کی ہر نشست کے لیے اپنے معیارِ مطلوب کے مطابق موزوں آدمی کھڑے کر سکیں۔ اس حالت میں تین قسم کے آدمی بالعموم میدان میں آتے ہیں۔ ایک وہ جو سرے سے نظام اسلامی ہی کے مخالف ہیں اور پاکستان کو ایک لادینی ریاست بنا دینا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نظام اسلامی کی مخالفت تو نہیں کرتے، مگر اس کی حمایت میں بھی مشکل ہی سے مخلص مانے جا سکتے ہیں اور اپنے اعمال کے لحاظ سے بھی ناقابلِ اعتماد ہیں۔ تیسرے وہ جن کے دامن بھی بداعمالیوں سے داغدار نہیں ہیں اور نظامِ اسلامی کے لیے جن کے اخلاص پر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ’’امیدواری‘‘ کی صفت ان سب میں پائی جاتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہی طریقہ مدت سے رائج ہے اور یہاں کے علما تک امیدوار بن کر کھڑے ہونے میں مضائقہ نہیں سمجھتے، بلکہ بکثرت علما کو فقہی حیثیت سے بھی اس طرح کی امیدوار کے ناجائز ہونے میں کلام ہے۔ اب اگر ہم اس بات پر اصرار کریں کہ ان تینوں قسم کے امیدواروں کے ساتھ یکساں معاملہ کریں گے اور سب کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کرنے سے مجتنب رہیں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم پہلی دو قسموں کے لوگوں کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر دیں گے اور تیسری قسم کے لوگوں کے ساتھ نظامِ اسلامی کے قیام کی کوشش میں ہمارا تعاون بھی مشکل ہی سے برقرار رہ سکے گا۔ اس طرح ہم ایک نسبتاً چھوٹے درجے کی اور ضمنی اصلاح (امیدواری کے عدم جواز) کی خاطر ایک بڑی چیز (پورے ملک میں نظامِ اسلامی کے قیام) کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوں گے، حالانکہ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے اصل مقصدی اہمیّت امیدواری کے طریقے کی اصلاح کو نہیں بلکہ نظامِ اسلامی کے قیام کو حاصل ہے جس کے قائم ہو جانے کے بعد تمام دوسری اصلاحات کے ساتھ امیدواری کے طریقے کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر ہم نے اپنی سابق پالیسی میں یہ تغیّر کر دیا کہ ہم خود تو امیدوار بن کر کھڑے ہونے سے بدستور مجتنب رہیں گے، مگر فاسد عناصر کے شر کو دفع کرنے، اور ان کے مقابلے میں نسبتاً صالح اور اسلامی نظام کے حامی عناصر کو آگے بڑھانے کے لیے جن امیدواروں کی تائید ناگزیر محسوس ہو گی ان کو ووٹ دیں گے بھی اور دلوائیں گے بھی۔ اوپر میں نے اسلامی احکام کی جو تشریح کی ہے اسے دیکھ کر ہر معقول آدمی بیک نظریہ محسوس کر لے گا کہ ہماری یہ نئی پالیسی ٹھیک ٹھیک دینی مزاج کے مطابق ہے اور اس میں درحقیقت کوئی اصول شکنی نہیں کی گئی ہے جو دین میں ممنوع ہو مگر اس پر یہ طوفان اٹھا دیا گیا کہ تم اپنی خواہشات اور اغراض کے لیے خود اپنے ہی مانے ہوئے اصول توڑنے پر اتر آئے ہو اور تمھارے پیش نظر اب بس اقتدار ہے جس کے لیے تم سب کچھ کر گزرو گے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ باتیں علم اور فہم کی کمی کی وجہ سے کی جا رہی ہیں یا ان کے محرکات کچھ اور ہیں۔
(ترجمان القرآن شعبان ۱۳۷۷ھ مطابق مئی ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭